28اگست 2024چودھری عبد العزیز اور چودھری محمد عزیز!
منیر احمد زاہد
28اگست 2024چودھری عبد العزیز اور چودھری محمد عزیز!
حویلی کے پسے ہوئے طبقات کو جن دو لوگوں نے زبان اور ہمت دی وہ چودھری عبد العزیز جو گجروں کی ٹھیکریا گوت سے ہیں۔ یہ ابھی 80 کے پیٹے میں حیات ہیں اور چودھری محمد عزیز جو چوہان گوت سے تھے جن کی آج 28اگست 2024 کو وفات ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے ۔دونوں چودھری عبد العزیز اور محمد عزیز کی معاشرے کے نظر انداز اور پس ماندہ طبقات کے لیے قربانیاں بے انتہا اور لازوال ہیں۔ اول الذکر چودھری عبد العزیز ایڈوکیٹ بنیادی طور عباس پور سے ہمارے خاندان کے پہلے وکیل تھے جو حویلی فاروڈ کہوٹہ سے 1985میں اسمبلی کا الیکشن لڑے اور ایک سیاسی اتحاد کے رہنما کو شکست دے کر سردار سکندر حیات خان کی کابینہ کا حصہ بنے ۔انہیں مسلسل اورکئی بار جیتنے کا بھی اعزاز حاصل ہے وہ مختلف ادوار میں قانون تعلیم پارلیمانی امور کے وزیر رہے اس کے علاوہ زکوٰۃ کونسل آزاد جموں و کشمیر کے چیرمین بھی رہے ، پھر سیاست سے 2002 میں حادثاتی طور الگ ہوکر ریٹائر زندگی بسر کرنے لگے اور اپنی جگہ نہایت فراخ دلی سے چودھری محمد عزیز کے لیے خالی کردی جس کے باعث چودھری محمد عزیز کو سیاست میں آنے کا موقع میسر آیا۔ اؤل الذکر چودھری عبد العزیز صاحب کے بارے میں بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جدید مسلم کانفرنس میں سب سے بڑے دانشور صاحب مطالعہ اور دور اندیشی سے مالامال تھے مگر بدقسمتی سے انہیں مسلم کانفرنس میں ان کی اہلیت کے مطابق جگہ نہ مل سکی ۔وہ بلاشبہ ریاست کے صدر و وزیراعظم بننے کے اہل تھے کیونکہ سردار عبد القیوم خان کے بعد مسلم کانفرنس میں اگر کوئی بڑے پائے کا شخص تھا تو وہ یہی تھے مگر بقول پرویز مشرف آزاد کشمیر میں ایسے لوگ بھی وزیراعظم بنے جن کو پیش کش کی گئی کہ آزاد کشمیر کو تین سو میگاواٹ بجلی مفت دینے کی سکیم پاکستان کے زیر غور ہے تو انہوں نے کہا کہ بجلی ہمارے لیے بڑا مسئلہ نہیں ہمیں آپ 13 لگژری گاڑیاں دے دیں جس پر پرویز مشرف نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کا مطلوبہ مفاد ان کو پہنچا دیا مگر نجی محفلوں میں اس مفاد پرستی کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ۔1985میں چودھری عبد العزیز جیتے تو ایک آدھ بار کے علاوہ مسلسل جیت ان کامقدر رہی ۔ دو ہزار دو کا الیکشن آیا تو مسلم کانفرنس کا ٹکٹ پھر چودھری عبد العزیز کے نام نکلا انہوں نے انتخابات میں شرکت کے لیے سٹکر پوسٹر بھی چھپوا لیے مگر چودھری محمد عزیز ڈٹ گئے کہ اب کی بار الیکشن وہ لڑیں گے چودھری عبد العزیز شریف الطبع تھے اس لیے مزاحمت کے بجائے اپنے بعد والی قیادت کو راستہ دے کر خود سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ۔ مسلم کانفرنس نے انہیں چیرمین زکوٰۃ کونسل بنادیا اور چودھری محمد عزیز جیت کر بعد ازاں وزیر بنے اور سینئر وزیر کے عہدے تک پہنچے ۔ حویلی سے راجہ ممتاز راٹھور جیت کر وزیر اعظم بھی بنے وہ ریاستی سطح کے بڑے سیاست دان تھے ۔ان کا اچانک انتقال ہوگیا تو چودھری محمد عزیز کے لیے سیاسی مقابلہ نسبتاً آسان بھی ہوگیا کیونکہ راجہ ممتاز راٹھور بڑے قد کاٹھ کے لیڈر تھے اور پرانے سیاسی کھلاڑی بھی تھے ۔بعد ازاں ان کی اہلیہ اور پھر بیٹے فیصل ممتاز راٹھور سیاست کے میدان میں آگئے جو کبھی ہارے اور کبھی جیتے مگر مقابلہ ہمیشہ ان کا چودھری محمد عزیز سے ہی ہوتا تھا چودھری عبد العزیز اور اور چودھری محمد عزیز کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو پہلا دور مشکل اور دوسرا دور نسبتاً آسان تھا مگر چیلنجز دونوں کے اپنے اپنے تھے چودھری عبد العزیز گفتگو بات چیت قانون اخلاق اطوار کے قائل تھے مگر چودھری محمد عزیز ایک دبنگ دلیر اور دو ٹوک سیاسی ٹکر کے قائل تھے ۔لھذا کہا جاسکتا ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں لوگوں کے جذبات کو زبان دی اور انہیں عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ دیا ۔ اب وقت بدل چکا ہے لوگ جان چکے ہیں کہ بے جا تناؤ ،تعصب اور تنگ دلی کے بجائے پیار محبت ہی مسائل کا واحد حل ہے ۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ محبتوں کا سفر اب ان لیڈروں کی اگلی نسلیں جاری رکھیں گی جس میں عزت احترام رواداری برداشت تحمل اور انسان دوستی کو اولیت حاصل ہوگی ۔ چودھری محمد عزیز کے فرزند بھی سیاست میں ہوں گے مگر میں ان سے زیادہ شناسا نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ چڑی کوٹ کے چودھری نذیر شہید کے فرزند عامر نذیر چودھری محمد عزیز کا خلا پر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اب یہ حویلی والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس خلا کو کس طرح پر کرتے ہیں ۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ لیڈر وہی کامیاب ہوتا ہے جو فطری بہاؤ کے ساتھ چل کر قیادت کے منصب تک پہنچے ۔ محض بڑے لیڈر کا فرزند ہونا اگرکام آتا تو آج سردار عتیق احمد خان سے بڑا کوئی سیاسی لیڈر نہ ہوتا مگر وہ اپنی تمام تر قابلیت صلاحیت کے باوجود باپ کی میراث کو سنبھال نہیں پائے ۔ سو اس تجربے کو پیشِ نظر رکھ کر ہی حویلی والوں کو کوئی فیصلہ کرنا ہوگا ۔
28اگست 2024چودھری عبد العزیز اور چودھری محمد عزیز!