مسئلہ بلوچستان کی سنگینی اور حکومتی غفلت
تحریر: سابق لارڈ مئیر آف بریڈفورڈ محمد عجیب سی بی ای
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل کے پارلیمنٹ کے حالیہ استعفیٰ نے پاکستان کی پہلے سے ہی ہنگامہ خیز سیاست میں مزید ارتعاش پیدا کر دیا ہے -ایک بار پھر ملک کے حکمران اشرافیہ کو صوبہ بلوچستان کی مسلسل بگڑتی ہوئی سنگین صورتحال کی یاد دلائی گئی ہے۔مو جودہ سنگین صورت حال کا سبب 3 ستمبر 2024 کو دن دھاڑے پنجابی مزدوروں/ مسافروں کا قتل کرنا ہے ، جس کی ذمہ دار ی کا اشارہ بلوچستان لبریشن آرمی کے ارکان کی طرف ہے۔ اس سانحہ نے اختر مینگل کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہونے پر اکسایا ہے۔ مینگل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں جن کا دوست اور دشمن دونوں احترام کرتے ہیں – انہوں نے عوامی سطح پر متنبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں حکمران اشرافیہ سے مایوسی اور بیزاری کا اظہار کیاہے- موجودہ سیاسی بحران بلوچستان کی ڈیولپمنٹ کو ایک طویل عرصہ سے مسلسل نظر انداز کرنے کہ نتیجہ میں ہے جس نے پاکستان کو بلوچستان کے کھوئے جانے کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے – مینگل کی پارلیمنٹ سے دوری یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے خلاف ایک سنگین الزام اور ایک تجربہ کار سیاست دان کی طرف سے وارننگ ہے ۔ میں نے 2013 میں لکھے گئے ایک تفصیلی مضمون میں، بلوچی عوام کا حکومت سے شکایات کا تفصیلی ذکر کیا تھا اور مرکزی حکومت اور بلوچستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی بنیادی وجوہات کا ذکر کیا تھا ۔ اوراس کو کم کرنے کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی تھی -قارین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے اس مضمون کو دوبارہ پیش کرتا ہوں۔ بلوچستان اس وقت ٹائم بم کے دھانے پر ہے – برصغیر کی تقسیم کے بعد سے بلوچستان کو عوامی، معاشی اور سماجی طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان نے اس صوبے کے ساتھ اپنی کالونی جیسا سلوک کیا ہے۔ تاہم، ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن کی ترقی اور عالمی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ، بلوچ اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہو رہے ہیں اور وہ اپنی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے بیرون ملک سے مدد حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا ان کی شکایات کو غور سے سُنا جائے ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے – لاپتہ افراد کے مشکل مسئلے کو سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچوں کا معیار زندگی بہتر ہونا چاہیے اور انسانی حقوق کو بحال کیا جانا چاہیے ورنہ اس کے سنگین نتائج اسلام آباد میں اپنی آرام دہ کوٹھیوں میں رہنے والے حکومت کے پالتوُں امیروں اور آرام دہ بیرکوں میں رہنے والے فوجی جرنیلوں کو بھگتنے پڑیں گے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ غریب بلوچوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کو دور کیا جائے جو وہ اپنے سرداروں اور جاگیرداروں اور لاپرواہ پاکستانی حکمرانوں اور ان کے بیوروکریٹس کے ہاتھوں بہت طویل عرصے سے جھیل رہے ہیں۔ صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لئے عوام کو ان کے مقامی آقاؤں کے ظلم کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی عملی مدد فراہم کی جانی چاہیے”۔
لیکن بدقسمتی سے صوبے میں پچھلی دہائی میں ماضی کے حالات میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی – اب تیسری نسل کے نوجوان بلوچوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت جو کہ تھوڑی زیادہ تعلیم سے آراستہ ہے اور سوشل میڈیا کے استعمال کی بہتر مہارت کے ساتھ سیاسی بیداری پیدا کرنے کا عزم کیئے ہوئے ہے – وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کا موثر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے مقابل تشدد پسند قوم پرستوں کی مہمات کو امریکہ اور بھارت دونوں کی خفیہ اایجنسیوں کی طرف سے مالی امداد حاصل ہے – دیگر بلوچستان اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے اور غیر دریافت شدہ معدنی وسائل کے بڑے ذخائر کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی عناصر کی نظریں اس پر مرکوز ہے – سرد جنگ کے طویل دور میں، مسابقتی طاقتوں کو بحر ہند کے گرم پانیوں اور بلوچستان کی پوشیدہ دولت تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل کرنے کے لیے اکثر خطرناک اقدامات کرنے پڑے۔ موجودہ بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کے پیش نظر بلوچستان کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
امریکہ کا افغانستان کو چھوڑنے اور طالبان کو ملک پر حکومت کرنے کے طور پر چھوڑنے کا بظاہر شکست خوردہ فیصلہ، کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسابقتی طاقتوں کو دھوکہ دینے کے لیے ایک دانستہ چال تھی، جس سے اس خطے میں اس کی دخل اندازی کم دکھائی دے اور وہ خفیہ انداز میں گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کو ہمالیہ کو عبور کرنے اور مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی کے منصوبہ کو روکا جا سکے – امریکہ یہ سیاسی چالبازی اس کے خفیہ اوچھے عزائم کی واضع ثبوت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت کو قائل کرنے اور دباؤ ڈالنے میں مصروف ہے – افغانستان کے اندر کی کے پی کے اور بلوچستان کی سرحدوں پر کام کرنے دہشت گرد تنظیم ٹی ایل پی اور بلوچستان لبریشن آرمی کے حملوں کی مدد اور حوصلہ افزائی امریکی پالیسی کا ایک اہم جز ہے ۔ اس میں بھارت کے ساتھ اس کا تعاون پاکستان کو مغربی سرحدوں پر ملوث کر کے اسے مشرقی سرحدوں اور کشمیر سے دور رکھا جائے ۔
اور بھارت کو اس کی اپنی اقتصادی ترقی جاری رکھنے کے لیے ایک جواز فراہم کیا جا سکے تاکہ وہ چین کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔ لہذا دونوں ممالک بلوچستان میں پہلے سے ہنگامہ خیز اور بے قابو صورتحال میں مزید ایندھن کا اضافہ کر رہے ۔ اس تناظر میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے پالیسی نگاروں کا بلوچستان کے تنازعے کے معماروں پر انحصار سمجھ سے بالاتر ہے۔ روزنامہ DAWN کے مطابق 9 ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم مابین ملاقات اس بات کی گواہی ہے کہ امریکیوں کے مقاصد کیا ہیں کہ وہ ملک میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے عملی مدد کی پیشکش کر کے خطے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کریں۔ڈان نیوز پیپر کے مطابق پاکستان نے معیشت اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے امریکہ سے مدد مانگی ہے۔ یہ بات منگل کو امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بتائی گئیں۔ یہ اجلاس گزشتہ ماہ بلوچستان میں الگ الگ دہشت گردی کے حملوں میں 70 افراد کی جانوں سے ہاتھ دھونے کے بعد منعقد ہوا، جس میں موسیٰ خیل کا واقعہ بھی شامل ہے جہاں مسلح افراد نے مسافروں کو ٹرکوں اور بسوں سے اتارا اور ان کی شناخت چیک کرنے کے بعد ان پر گولیاں چلائیں -اگر چہ یہ واضح نہیں کہ امریکہ سے کس قسم کی سیکیورٹی مدد کی درخواست کی گئی تھی – لیکن یہ واضح ہے کہ یہ درخواست کسی ایسے شخص سے کی جارہی تھی جو صوبے میں شہریوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں شامل ہے - پاکستانی سیاستدانوں اور عسکری قیادت کی امریکی انتظامیہ کی تابعداری ملک میں خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم جب قومی مفادات داؤ پر لگ جائیں تو یہ قابل قبول نہیں کہ حکمران اشرافیہ اپنے لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر ایک دوسری طاقت ور قوم کی خواہشات کے سامنے عاجزی سے سرتسلیم خم کرے۔ اس کے برعکس بلوچستان کی حکومت سے مایوسی اور عدم اطمینان کی متعدد وجوہات اور اس کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلتوں کا حقیقی اور دیرپا حل حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے- طاقت کے بھرپور استعمال کا فیصلہ کرنے سے پہلے گہرائی اور خلوص سے صورتحال کا مطالعہ کرے۔
بلوچستان کو باقی صوبوں کے برابر
اول ، سب سے پہلے بلوچستان کو باقی صوبوں کے برابر لانے کے لیے تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر کرنا ہوگا۔
معاشی اور سماجی تفاوتوں
دوم، معاشی اور سماجی تفاوتوں اور سرداروں، نوابوں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کی جانب سے ناقابل تسخیر اختیارات کے بے دریغ اور بے جا استعمال کو ختم کرنا ہو گا اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنانا ہو گا –
مقامی وسائل
سوم، مقامی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی اور منافع بشمول قدرتی معدنیات کے ذخائر اور دیگر وسائل کو صوبے کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کرنا ہو گا ۔
روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت
چوتھا، روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور تربیت اور بھرتی کے لیے مقامی لوگوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
حق رائے دہی
پانچ، صوبے میں حق رائے دہی سے محروم طبقے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ شہری اور سیاسی زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ان کی اہمیت کا احساس ہو سکے۔ مقامی اور قومی حکومت دونوں کے انتخابی نظام میں اصلاحات کو ترجیحی طور پر انجام دیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان مردوں اور عورتوں کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں اپنے مقامی معاملات کو چلانے اور انتظام کو فعال کرنے میں پر اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ صوبے کی حکومت کے لیے بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلے فوجی طاقت کے استعمال کی پالیسی پر عمل کرنا مضحکہ خیز اور غیر دانشمندانہ ہوگا۔ اس دہشتگرد اور انتہا پسندوں تقویت مل سکتی ہے –
دیگر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث بیرونی اور اندرونی عناصر کے حربوں مقابلہ معتبر ، پائیدار اور پرکشش سماجی، سیاسی اصلاحات سے بلوچستان میں امن کی بحالی کو بہت آگے لے جا سکتی ہے۔ تاہم، پاکستان کی انتہائ بیمار معیشت ،سیاسی ابتری اور بلوچستان کے متنازعہ حالات بیرونی طاقتون کے لیے بلوچستان کے اس کی چھپی ہوئی دولت پر قبضہ کرنے اور بلوچستان کی اہم پوزیشن کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا بہترین موقعہ ہے جو وہ کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہیں گئے ۔ لیکن اگر اسلام آباد کے حکمران اس نظر انداز اور محروم صوبے میں مزید تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کو روکنے کے لیے ضروری اصلاحات کرنے میں ناکام رہے تو اختر مینگل کی پیشین گوئی بہت جلد سچ ثابت ہو سکتی ہے