معذرت کے ساتھ

معذرت کے ساتھ

اے ایچ ہاشمی

حرام و حلال
وزیر اعظم آزاد کشمیر چو ہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ اعلانا ت پر عمل ہو گا کیچڑ اچھالنا کہاں کی صحافت ہے۔میڈ یا جائز تنقید کرے۔جناب وزیر اعظم صاحب نے آج حلال اور حرام تنقید بارے بتا دیا ہے۔ویسے تو قانون پاس ہو چکا ہے کہ اگر کسی حکومتی شخصیات بیو رو کریسی سمیت کسی ادا رے کے خلاف کوئی خبر لگا ئی یا کوئی بات کی تو سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ حکومت اس شخص یا صحافی کو سات سال قید سنا تے ہوئے جیل میں ڈال دے گی۔اس کے بعد خبر کے سچا یا جھو ٹا ہونے کی تحقیق شرو ع کی جائےگی۔یہ تحقیقات جو شرو ع ہو گی وہ کئی سو سال تک جاری رہ سکتی ہے ۔یہاں تو لوگوں کو پھانسيا ں ہوئے بیس تیس سال گزر جاتے ہیں پھر اس ملزم کی با عزت بر یت کا فیصلہ آ تا ہے۔ادھر بھی کچھ ایسا ہی قانون بنایا گیا ہے کہ پہلے سزا ه ہو گی اس کے بعد تحقیق ہو گی۔یہ صورتحال حرام تنقید اور حلال تنقید سے جو ڑ دی گئی ہے ۔اس کا ترجمہ کچھ یو ں بنتا ہے کہ موجودہ حالات میں اگر چودھری طارق فاروق صاحب پر تنقید کی جاتی ہے تو وہ عین حلال تنقید شمار هو گی اور تنقید کرنے والے کو بادشاہ سلامت کی طرف سے انعام وغیرہ بھی دیے جا نے کی امید کی جا سکتی ہے۔یہی صورتحال اگر دوسری طرف مو ڑ دی جائے اور تنقید اگر چودھری صحبت مرحوم کے بیٹے پر کی جائے گی تو یہ سرا سر حرام ہو گی ۔بالکل اسی طرح جیسے سو ر کا گوشت حرام ہے۔گدھے کی کڑ ا ھی حرام ہے۔کتے کے تکے حرام ہیں۔اب عوام کو مثال تو سمجھ آ گئی ہوگی اور حرام و حلال کی تمیز بھی آ گئی ہوگی۔صرف صحافی ہی نہیں اب عوام کو بھی یہی طر ز عمل اختیار کرنا پڑے گا کسی بھی حکومتی بندر بانٹ کی صورت میں ریو ڑ ی نہ ملنے پر بولنے کی آجاز ت نہ ہوگی ورنہ سات سال کی سزا ہے۔باقی اعلان پر عمل کی بات ہے تو پھر اچھی بات ہے لیکن یہ اعلان سب کے لیے برابر ہونے چا ہیے نہ کہ صرف اپنی پسند کے اعلان پر عمل ہو اور جو نا پسند ہو اسے باہر پھینک دیا جائے۔

معذرت کے ساتھ

لیکچر
وزیر تعلیم ملک ظفر نے کہا ہے کہ تعلیم کے بغیر دنیا ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی۔تعلیمی اداروں میں سٹاف کی کمی کو پورا کریں گے۔جناب والا پلندر ی کے کسی کالج میں مہمان خاص کے طور پر تقریب میں جلوہ افروز تھے اور اپنے لب شریف سے پڑھے لکھے لفظ شریف کی مالا پرو رہے تھے جو جاتے ہوئے سب نے اپنے گلے میں سجا لی۔یوں لگتا تھا کہ کوئی عالم با عمل جمعہ کا خطبہ ارشا د فرما رہا ہے اور باقی دنیا سامنے بیٹھی اس قیامت صغرا کے منظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر حیران و پریشاں ہو رہی ہو۔جناب والا کو تعلیم کا وزیر لگا کر آزاد کشمیر کی تعلیمی سر گر میوں کو چار چاند لگا دیے گئے ہیں حالانکہ موصوف کے لیے چار چاند کے بجائے دس چاند والی بات کہنی چا ہیے تب بات سجتی ہے۔یہ تو ہمارے پاس بہت بڑی نعمت ہے کہ موصوف وزیر تعلیم ھیں حالانکہ دنیا کے پاس میٹر ک فیل معزز ین كرام کسی پلی تھلے پنکچر لگا تے ہیں ۔خیر دنیا میں اور ہم میں فرق ہے۔ ہم تو جو پڑھا لکھا نہ ہوجوبچپن میں پڑھا ئی سے دو کلو میٹر دو بھا گتا رہا ه ہو یا جوانی مستانی میں بندے پھڑ کا تا ر ہا ہو اسے بھی سر آنکھو ں پر بٹھا دیتے ہیں اور اعلی تعلیم کا وزیر لگا دیتے ہیں۔خیر سے اس میں کسی صاحب کی تو کوئی غلطی نہیں ہے ۔کہیں قاتل خود گرا ہے نیز ے کی نوک پر والی بات ہو جاتی ہے ۔وزارت بھی خود چل کر موصوف کے گلے لگی اور رو پڑی هہو گی اور کہا ہوگا۔مجھے لے چل اپنے گا ؤ ں میں پیپل کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤ ں میں اور جناب نے مجبور هو کر کہا ہو گا۔تجھے پیار کرتے کرتے میری عمر بیت جائے ۔جناب والا دل پہ نہ لیجئے گا آپ کا دل بہت نازک ہے بس آپ تعلیم کی خدمت جاری رکھیں اور ایسےہی لیکچر دیتے رہیے ۔جناب کی تعلیم کو اشد ضرورت ہے۔مطلب یہ ہوا کہ آپ اور تعلیم بہت زور کے لازم و ملز وم ہیں۔

معذرت کے ساتھ
مبارکباد
آج کل ایک ٹر ینڈ بن چکا ہے کہ کوئی بڑ ے قد کاٹھ والا یا جس کے گھر میں دانے ہوں وہ عمرہ یا حج کر کے آ ئے یا کوئی چھو ٹا مو ٹا کارنامہ کرے اس کو مبارکباد وں کے طو فا ن لگا دیتےہیں۔غرض کہ کوئی برا ئی بھی کرے تو لوگ گھر جا کر مبارک ہی دیتے ہیں کیوں کہ فٹے منہ تو کہہ نہیں سکتے۔بندہ ڈ ا ڈ ا ہے ۔پچھلے وقتوں میں بھی شاید یہی ٹرینڈ ہوا هو لیکن اس وقت اخباریں اور فیس بکیں نہ تھیں ۔زینگر بر گر تھو ڑ ا سا لیٹ تشریف نہ لاتے تو پچھلی قو م کو بھی فیس بک نصیب ه ہو جاتی لیکن موبائل بنانے والے اور سافٹ ویئر انجینئر سارے ہی دنیا میں آ تے آ تے لیٹ ه ہوگئے۔خیر پچھلے وقتوں میں بھی بہت کام تھے جن پر مبارکبا دیں دی جاتی تھیں ۔اس زمانے میں خاندا نی منصوبہ بندی نہ تھی اور ہر سال بچہ پیدا ه ہو تا تھا تو یہ مبارکبا د تو ہر سال ہوتی تھی۔آج کل کے دور میں مبارکباد دوسرا رخ اختیار کر گئی ہے۔کوئی غریب اگر بڑے سے بڑا کام بھی کرے تو کہتے ہیں ۔یہ کون سا کوئی بڑا کام ہے ۔سائیں پھتے نے تو اس سے بھی زیادہ کیا ہے۔یہ دور امیر وں کا پے جو سانس بھی لیں تو مبارکباد آ جاتیپے۔خیر کچھ لوگ تو ان کی وفات پر بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اب ایک وقت ایسا آ نے والا ہے کہ اس مہنگا ئی کے دور میں لوگ ہنسنے پر بھی مبارکباد پیش کریں گے اور بل جمع کرا نے پر تو ڈھول باجے بجا کر رقص بھی کریں گے۔

 

راولپنڈی میں ماحولیاتی آلودگی،ایک تشویشناک صورتحال

 

 

اے ایچ ہاشمیمعذرت کے ساتھ