شاہد نسیم چوہدری
*کشمیر ایکسپریس: سچ کی مسافت کا تیئیس سالہ سفر*
صحافت محض الفاظ کا ہنر نہیں، یہ وقت کے آئینے میں سچ کی تصویر گری ہے۔ یہ محض خبریں دینے کا عمل نہیں، بلکہ عوام کے شعور کو جگانے، اُن کے مسائل کو ایوانوں تک پہنچانے، اور محرومیوں کو زبان دینے کا فریضہ ہے۔ ایسے میں جب کسی ادارے کو تیئیس برس مکمل ہو جائیں اور وہ آج بھی اپنی سچائی، دیانت داری اور عوامی نمائندگی کے اصول پر قائم ہو، تو یہ صرف سالگرہ نہیں، بلکہ صحافت کی کامیابی کا جشن ہوتا ہے۔
کشمیر ایکسپریس کی تیئیسویں سالگرہ کے موقع پر میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چیف ایڈیٹر ذاہد تبسم، ایڈیٹر شمیم اشرف اور اس کارواں کے تمام ہمسفروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یہ صرف ایک اخبار نہیں، بلکہ یہ وادی کشمیر کی آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو گولی کی گرج میں بھی سچ بولنے سے نہیں ہچکچائی۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے امن کی بات کی، حقِ خودارادیت کی بات کی، مظلوم کی بات کی اور صحافت کی اصل روح کو زندہ رکھا۔
جب میں نے تقریباً دس سال قبل کشمیر ایکسپریس سے رفاقت اختیار کی، تو یہ صرف ایک قلمی رشتہ نہ تھا، یہ ایک فکری ہم آہنگی اور نظریاتی ہم سفری تھی۔ میں نے ان دس برسوں میں اس ادارے کو صرف پروفیشنل انداز میں چلتے نہیں دیکھا، بلکہ میں نے یہاں نظریہ دیکھا، وژن دیکھا، اور سب سے بڑھ کر ایک مشن دیکھا۔
ذاہد تبسم کی قیادت میں ادارہ جس طرح نہ صرف مقامی خبروں کو عالمی تناظر میں پیش کرتا رہا، بلکہ کشمیری عوام کی ترجمانی کا حق بھی ادا کرتا رہا، وہ واقعی قابلِ رشک ہے۔ ان کے قلم میں وقار بھی ہے، کاٹ بھی ہے اور فہمِ حالات بھی۔ ان کی سوچ صرف مدیر کی نہیں، بلکہ ایک درد مند دل رکھنے والے قومی رہنما کی سوچ ہے۔
ایڈیٹر شمیم اشرف بھی اس قافلے کے اہم ستون ہیں۔ انہوں نے صحافت میں توازن، شائستگی، اور تحقیق کو فروغ دیا۔ ان کے زیرِادارت کئی ایسے شمارے شائع ہوئے جنہوں نے وادی کے درد کو پاکستان کے ہر کونے تک پہنچایا۔
میری دس سالہ رفاقت اس ادارے کے ساتھ محض پیشہ ورانہ وابستگی نہ تھی۔ یہ ایک اعتماد کا رشتہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہاں مضمون کی اشاعت سے زیادہ اہمیت اُس کی روح، سچائی اور اثر پذیری کو دی جاتی ہے۔ یہاں کسی بڑے سیاستدان کے بیانات پر مبنی کالم کو نہیں، بلکہ ایک چھوٹے کسان کے دکھ کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر ایکسپریس عوام میں مقبول اور خواص میں قابلِ احترام ہے۔
تیئیس سال، یہ کم وقت نہیں۔ اس دوران ادارے نے نہ صرف بے شمار سیاسی طوفانوں کا سامنا کیا، بلکہ معیشت، میڈیا سینسرشپ، اور علاقائی کشیدگیوں جیسے بحرانوں کو بھی جھیلا۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ یہ اخبار نہ بکا، نہ جھکا، اور نہ ہی کبھی نظریاتی رو سے پیچھے ہٹا۔
کشمیر ایکسپریس نے ایک طرف عوامی صحافت کو فروغ دیا، تو دوسری طرف نوجوان صحافیوں کی تربیت میں بھی قابلِ قدر کردار ادا کیا۔ آج پاکستان اور کشمیر میں ایسے کئی نمایاں صحافی موجود ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی پرواز اسی اخبار سے بھری۔ادارے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں لوکل صحافت کو گلوبل تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ایک گاؤں کے اسکول کی بندش سے لے کر اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر قرارداد تک، ہر پہلو پر باریک بینی سے لکھا جاتا ہے۔میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے بھی یہاں کئی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ کبھی کسی مقتول کے والد کے انصاف کے لیے آواز بلند کی، تو کبھی کسی سرکاری نااہلی کو بےنقاب کیا۔ اور مجھے ہمیشہ مکمل ادارتی آزادی ملی، جو آج کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں۔کشمیر ایکسپریس کا مزاج ہمیشہ تحقیق، تہذیب اور تحریر کے حسین امتزاج پر قائم رہا ہے۔ یہ اخبار صرف خبر نہیں دیتا، خبر کی معنویت بھی سمجھاتا ہے۔
جب کشمیر کی بات ہو اور کشمیر ایکسپریس کا ذکر نہ ہو، تو بات مکمل نہیں ہوتی۔ اس ادارے نے ہمیشہ کشمیری عوام کی شناخت، ان کی ثقافت، ان کی سیاست اور ان کی امیدوں کو اپنی سرخیوں میں جگہ دی۔تیئیس برس مکمل ہونے پر صرف مبارکباد دینا کافی نہیں، ہمیں یہ بھی عہد کرنا ہوگا کہ ایسے اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں، جو صحافت کو تجارت نہیں بناتے، جو سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور جو عوام کو صرف قاری نہیں، امانت سمجھتے ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ نئے صحافی، نوجوان لکھاری، اور سچ کے متلاشی لوگ کشمیر ایکسپریس کو ایک مثال کے طور پر دیکھیں۔ یہ صرف ایک اخبار نہیں، یہ ایک نظریہ ہے۔ یہ ایک تحریک ہے جو قلم کی طاقت سے چلی، اور آج بھی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔آخر میں ایک بار پھر ذاہد تبسم، شمیم اشرف اور پوری ٹیم کو دل سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ آپ کی کاوشیں، قربانیاں، محنت اور لگن آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔اللہ کرے یہ چراغ ہمیشہ روشن رہے۔