پہلگام کا دہشتگردی کا واقعہ: جنوبی ایشیا میں بڑھتا ہوا خطرہ
تحریر ۔سابق لارڈ مئیر آف بریڈفورڈ محمد عجیب سی بی ای
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ دہشتگردی کا المناک واقعہ بھارت کی دیوانی اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کا مظہر ہے۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی طرز پر اپنی خفیہ ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے، کشمیر اور دیگر ممالک میں پراکسیز بنانے اور سیاسی مخالفین کو قتل کرنے جیسی کارروائیاں انجام دے رہا ہے تاکہ اپنی غیر منصفانہ معاشی اور دفاعی قوت کا مظاہرہ کر سکے۔
مزید برآں، بھارت کی جانب سے کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں، جیسے ہندو بھارتی شہریوں کو مفت زمین الاٹ کرنا، بھی اس افسوسناک واقعے کی ایک بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ یہ خطرناک اور غلط پالیسی نہ صرف کشمیر کی زمینی حقیقتوں سے متصادم ہے بلکہ اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ کشمیر کی حیثیت کے بھی خلاف ہے۔
فی الحال بھارت میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت بی جے پی اور اس کی کٹر اتحادی جماعت، نیو فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس، برسراقتدار ہیں۔ اس غیر جمہوری حکومت کے تحت مذہبی انتہا پسندی، خاص طور پر ہندوتوا کے نظریے کو ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا ہے۔ نسل، مذہب اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ ملا ہے جبکہ کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ اور کشمیری عوام پر ظلم حد سے بڑھ چکا ہے۔
داخلی طور پر بھی بھارت میں حکومت کو شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا ہے۔ چونکہ ملک پر سرمایہ دارانہ نیو فاشسٹ عناصر کا قبضہ ہے، عام لوگ شدید غربت، محرومی، سماجی، نسلی اور مذہبی امتیاز کا شکار ہیں۔ نتیجتاً، مودی حکومت کی مقبولیت اور گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں یہ امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ مودی حکومت نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور بہار میں ہونے والے ریاستی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے اس گھناؤنے دہشتگردی کے واقعے کی منصوبہ بندی کی ہو۔
دوسری طرف، پاکستان نے ابتدا ہی سے اس خونریز واقعے پر نہایت دفاعی مگر مضبوط، غیر متزلزل اور تعمیری انداز میں ردعمل دیا۔ پاکستان نے حتیٰ کہ ایک غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش بھی کی، جو اس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے شفافیت اور امن کی خواہش کا ثبوت ہے۔
تاہم، بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ کشیدگی کو مزید بڑھانے کا باعث بنا، جس پر پاکستان نے ممکنہ جنگ کی سنگین تنبیہ کی۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی حکومت کے اس حساس مسئلے پر سخت مگر مدبرانہ موقف کی حمایت کر رہی ہے۔
دونوں ممالک کے سخت گیر عناصر حسبِ معمول زہر اگلنے اور اشتعال انگیز بیانات دینے میں مصروف ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر پاکستانی قوم نے بالیدگی اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ صورتحال بین الاقوامی برادری کی گہری توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، جو جنوبی ایشیا میں پیدا ہوتی کشیدگی کو دلچسپی اور تشویش سے دیکھ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، باوجود اس کے کہ ان کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اس مسئلے پر کھل کر کسی ایک فریق کی حمایت سے گریزاں ہیں، کیونکہ ان کی توجہ زیادہ تر چین کی اقتصادی پیشقدمی کو روکنے پر مرکوز ہے۔
یورپی حکومتیں فی الحال غیر جانبدارانہ موقف اپنائے ہوئے ہیں اور خطے کی سیاسی ہوا کا رخ بغور دیکھ رہی ہیں۔ عرب ممالک دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان مکمل جنگ کے خدشے کو ٹالنے کے لیے مصالحتی کردار ادا کر رہے ہیں۔
دنیا کے رہنماؤں کے لیے یہ ایک نازک لمحہ ہے: کیا وہ بروقت کارروائی کرکے خطے کو تباہی سے بچائیں گے یا حسبِ سابق چشم پوشی اختیار کریں گے جب تک کہ نقصان ناقابل تلافی نہ ہو جائے؟
پہلگام کا واقعہ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کر گیا ہے۔ جب تک کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حقِ خودارادیت نہیں دیا جاتا، جنوبی ایشیا میں امن و استحکام محض ایک خواب ہی رہے گا۔
بھارت اور پاکستان دونوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ کشمیر کی آزادی ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ اس تنازعے کا جاری رہنا نہ صرف دونوں ملکوں کے وسائل کو ضائع کر رہا ہے بلکہ ان کے عوام کو مسلسل غربت اور بدحالی میں دھکیل رہا ہے۔
دونوں ممالک کو دشمنی کو طول دینے کے بجائے اپنے عوام کی خوشحالی اور ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ ناگزیر ہے کہ بھارت، پاکستان اور دنیا بھر کے رہنما اس امر کا ادراک کریں کہ جب تک غربت، سماجی ناانصافی، سیاسی جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کا خاتمہ نہیں ہوتا، دنیا سے دہشتگردی کی مختلف اشکال کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
اصلی کامیابی میدان جنگ میں نہیں بلکہ جہالت، ظلم اور محرومی کے خلاف جدوجہد میں حاصل ہوتی ہے۔
دنیا کو جنگ کے نقاروں کے بجائے مظلوموں کی صدائیں سننے کی ضرورت ہے۔
جنوبی ایشیا کے عوام اور پوری دنیا کے مظلوم انسان انصاف، امن اور عزت کے متلاشی ہیں۔ ان کی امیدیں اب ان رہنماؤں سے وابستہ ہیں جن پر ان کی قسمت کا دارومدار ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عقل اور حکمت جذبات اور ہوس پر غالب آ جائے، اور جنگ کے بجائے امن کو موقع دیا جائے۔