ماہرین کا تمباکو اور این سی ڈیز کی روک تھام کا مطالبہ

ماہرین صحت کا تمباکو نوشی اور غیر متعدی بیماریوں (NCDs) کی روک تھام کے لیے فوری حکومتی اقدامات کا مطالبہ

نوجوان نسل کو بچانے کے لیے تمباکو اور اس کی مصنوعات پر فوری ٹیکس نافذ کرنا ضروری ہے، مسعود الرحمٰن کیانی

 

راولپنڈی (کشمیر ایکسپریس نیوز) پاکستان میں بڑی تعداد میں افراد، خاص طور پر نوجوان، تمباکو نوشی کی ہلاکت خیزی کا شکار ہو چکے ہیں، اور اب ان کمپنیوں نے تمباکو کی صنعت نے مزید تباہ کن مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کرا دی ہیں۔ ہمیں نوجوان نسل کو ان خطرناک ہتھکنڈوں سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔ ممتاز ماہرین صحت اور عوامی صحت کے علمبرداروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمباکو کے استعمال کی روک تھام، بالخصوص نوجوانوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے سخت اقدامات کرے

 

یہ مطالبہ ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس میں کیا گیا جو پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) اور آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (AFIC) کے اشتراک سے عالمی یوم انسدادِ تمباکو کے موقع پر منعقد ہوئی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی AFIC کے کمانڈنٹ میجر جنرل نصیر احمد سومور تھے۔تقریب سے خطاب کرنے والوں میں صدر پناہ جنرل (ر) مسعود الرحمٰن کیانی،سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شفقت جاوید شیخ ا، کرنل (ر) ڈاکٹر شکیل احمد مرزا، ڈاکٹر رشید کنٹھ، پناہ کے سینئیر ایگزیکٹیو وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان، سابق ڈی ایس پی مرزا طاہر، ڈاکٹر شہناز سابقہ ایم۔پی۔ اے تحسین فواد، ثمینہ شعیب، اور سول سوسائٹی کے نمائندگان شامل تھے۔ تقریب کی میزبانی پناہ کے سیکرٹری جنرل ثناء اللہ گھمن نے کی۔

 

میجر جنرل نصیر احمد سومور نے خبردار کیا کہ تمباکو پاکستان میں غیر متعدی بیماریوں (NCDs) کا سب سے بڑا سبب ہے اور دل کی بیماریوں کی بنیادی وجہ بھی۔ انہوں نے عوام اور پالیسی سازوں کے درمیان باہمی اشتراک کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مؤثر قانون سازی کے ذریعے ہر عمر کے افراد میں تمباکو کے استعمال کو کم کیا جا سکے۔

 

جنرل (ر) مسعود الرحمٰن کیانی نے کہا کہ پناہ گزشتہ چالیس برسوں سے اپنے ہم وطنوں کو دل اور متعلقہ بیماریوں سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی دل کے امراض، کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کی اہم وجوہات میں سے ہے۔ ہم قوم کو تمباکو کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے مشن پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمباکو پر ٹیکس بڑھانا قلیل مدتی حل ہے جبکہ طویل مدتی حل قانون سازی کے ذریعے اس پر مکمل پابندی عائد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متوازن غذا، روزانہ ورزش، اور سگریٹ نوشی سے پرہیز NCDs کی وبا کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

 

کرنل (ر) ڈاکٹر شکیل احمد مرزا نے تمباکو اور نکوٹین مصنوعات کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صنعت مختلف ہتھکنڈوں سے اپنی مصنوعات کی مارکیٹ بڑھا رہی ہے، اور نئی مصنوعات جیسے نکوٹین پاؤچز متعارف کروا رہی ہے۔ سوشل میڈیا وہ پلیٹ فارم کو صنعت سب سے زیادہ استعمال کرتی ہے، اور اس کا بنیادی ہدف نوجوان ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بیماریوں کا گڑھ بن چکا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ انتہائی سستے داموں پر دستیاب الٹرا پروسیسڈ اور تمباکو مصنوعات ہیں۔ حکومت کو ان بنیادی وجوہات کے خاتمے کے لیے سخت پالیسی اپنانی چاہیے۔

ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ میٹھے مشروبات اور تمباکو کی صنعتوں کا سب سے بڑا ہدف بچے ہیں۔ یہ صنعتیں تعلیمی اداروں کو خاص طور پر نشانہ بناتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو ان مصنوعات کا عادی بنایا جا سکے۔ دکانوں میں یہ مصنوعات ایسی اشیاء کے ساتھ رکھی جاتی ہیں جو بچوں اور نوجوانوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ ان پر کوئی انتباہی نشان نہیں ہوتا کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صنعت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سالانہ اربوں روپے ٹیکس ادا کرتی ہے، جبکہ تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر سالانہ اخراجات 615 ارب روپے سے زائد ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمباکو صنعت کی آمدن ان بیماریوں پر خرچ ہونے والی رقم کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے۔ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات اور تمباکو پر ٹیکس عائد کرنے سے ان کے استعمال میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

 

تقریب کے اختتام پر جنرل (ر) مسعود الرحمٰن کیانی نے ایک قرارداد پیش کی، جس میں پالیسی سازوں سے اپیل کی گئی کہ وہ عوامی صحت کو کارپوریٹ مفادات پر ترجیح دیں۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تمباکو اور دیگر غیر ضروری مصنوعات، جیسا کہ میٹھے مشروبات، پر ٹیکس نافذ کرے اور عوامی صحت کو اولین ترجیح بنائے۔

ماہرین کا تمباکو اور این سی ڈیز کی روک تھام کا مطالبہ
Comments (0)
Add Comment