پانچ اگست2019 سے پانچ اگست 2024تک

پانچ اگست2019 سے پانچ اگست 2024تک
تحریر: راجہ محمد سہیل خان، ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر مظفرآباد

حد متارکہ کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج ہندوستان کی جانب سے پانچ اگست 2019 سے مسلسل جبر کی پانچویں برسی کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ آج ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر میں آئینی دہشتگردی کے پانچ سال مکمل ہوچکے جبکہ ریاستی دہشتگردی کی داستان ساڑھے سات دہائیوں پرمحیط ہے۔ آج کے دن ہندوستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی غرض سے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے یونین ٹریٹری قرار دیدیا مگر کشمیری قوم نے ماضی کی طرح ہندوستان کے اس غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ ہندوستان کی جانب سے بھرپور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود اس عمل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہے۔

ہندوستان پانچ اگست 2019 سے مسلسل ایک سازشی عمل میں مصروف ہے، جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے ڈھانچے اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر کے کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین میں ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنا ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق ہندوستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی کشمیری عوام کے حق خود ارادیت سے انکار کی جانب ایک قدم ہے۔ اس طرح کی قانون سازی اور انجینئرڈ عدالتی فیصلوں کے ذریعے کشمیریوں کے بنیادی حق اورانکی امنگوں پر شب خون مارنے کی کوشش ہے۔

پانچ اگست 2019 کے بعد ہندوستان کی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر میں907 بے گناہ نہتے کشمیریوں کو شہید کیا، 2442 کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا، 24904 بے گناہ شہریوں کی گرفتاریاں عمل میں لائیں، 1122 کشمیریوں کی املاک تباہ کیں، 69 خواتین کو بیوہ کیا، 167 کشمیری بچوں کویتیم کر دیاگیا اور 133 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔

ہندوستان کے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے سرینگر شہر سے منتخب ممبر آغا روح اللہ مہدی نے لوک سبھا میں اپنے پہلے خطاب میں ہندوستان کی جانب سے 370 کے خاتمہ کے اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا “کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیا گیا کہ ہم سے پوچھے بغیر ہمارا سٹیٹس، 370 ہم سے چھینا گیا اور ہم سے پوچھے بغیر ہمارے خلاف فیصلہ لیاگیا۔ میں جموں وکشمیر کو یونین ٹریٹری قبول نہیں کرتا۔ ایسی ریاست جس کے پاس قانون سازی کا حق تھا، آج اسکے پاس کچھ نہیں رہا۔ ہمارا بجٹ دہلی میں بنایا جاتا ہے اور جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔ ہم سے اختیارات چھین لیے گئے ہیں اور اب دہلی حکومت کا وائسرائے جسے آپ ایل۔جی کہتے ہیں ہمارے فیصلے کرتا ہے جس کی وجہ سے جموں وکشمیر میں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ہماری ریاست سے بجٹ بنانے اور فیصلے کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ اب ہمارا بجٹ مرکزی حکومت بناتی ہے جو جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ مذاق ہے۔ ہندوستان کی ساری ریاستیں اپنا بجٹ خود بناتی ہیں لیکن ہم پر فیصلے تھوپے جا رہے ہیں۔ 370کے خاتمہ کے بعد جموں وکشمیر کی ریاست کو تالا لگایا گیا جس کے نتیجہ میں ہمارے بچوں کی عمریں زیادہ ہوگئیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ دہلی سے پھلوں پر سپرے کرنے والی زہریلی دوائیاں جموں وکشمیر بھیج کر ہمارے پھلدار پودے خراب کیے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے سیب کو روک کر ایران، امریکہ اور دیگر ممالک سے بغیر ٹیکس، بغیر امپورٹ ڈیوٹی سیب لا کر ہندوستان کی منڈیاں بھری جا رہی ہیں۔ کشمیر کے ہارٹیکلچر کو زہریلی سپرے سے خراب کیا جا رہا ہے تاکہ ہماری معیشت کو کمزور اور ہارٹیکلچر کو ختم کیا جا سکے”۔ اس خطاب کو ہندوستان کی نام نہاد جمہوریت کے پردھان منتری نریندرا مودی اور انکے حواری غصے بھری نگاہوں سے دیکھ اور سن رہے تھے۔ لیکن یہ تقریر اقوام عالم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی۔

پانچ اگست2019 سے پانچ اگست 2024تک

ہندوستان کی انتہاپسند حکومت نےآرٹیکل 370 اور 35اے منسوخ کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام پرجہاں عرصہ حیات تنگ کردیا وہیں مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری، غربت اور افلاس کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہر آنے والا دن غربت و افلاس میں اضافہ لے کر آتا ہے۔ مستند اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ وادی میں غربت 49 فیصد کی خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔ مقبوضہ وادی کے عوام غربت کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبورہو چکے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح23.09 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اس میں آئےروز اضافہ ہو رہا ہے۔ آغا روح اللہ مہدی کی لوک سبھا میں کی گئی تقریر نے واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان نے کتنے منظم طریقے سے نہ صرف جموں وکشمیر خصوصی حیثیت ختم کی ہے بلکہ وہ ریاست کی معشیت کو کمزور کر کے یہاں کہ لوگوں کو ریاست چھوڑنے پر مجبور کررہا ہے تاکہ وہ یہاں غیر ریاستی باشندوں کو آسانی سے آباد کرتے ہوئے ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی راہ ہموار کر سکے۔

آج استحصال کشمیر کے دن دنیا بھر میں مقیم کشمیری اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد پر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کا فیصلہ جمہوری طریقے سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جانا ہے۔ آج کا دن کشمیریوں کے اس ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا اعادہ ہے جو بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے۔

 

 

پانچ اگست2019 سے پانچ اگست 2024تک

یہ امر افسوسناک ہے کہ ساڑھے سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر تسلط کے باعث وہاں کے مظلوم عوام اپنے بنیادی حق، حق خودارادیت کا استعمال نہیں کر سکے اور ہندوستان اب تک جموں و کشمیر کے عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

یوم استحصال کشمیر کھ موقع پر بہادر کشمیری عوام ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کی ریاستی دہشتگردی سےان کے جذبہ آزادی کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیریوں نے جس عظیم مقصد کے لیے اپنی نسلوں کی قربانیاں دی ہیں اس کے حصول تک وہ اسی ولولے، ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے ناقابل تنسیخ حق کی منصفانہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جو ہر سال “عوام کےحق خودارادیت کی عالمگیراحساس” پر ایک قرارداد منظورکرتی ہے جسکا مقصد جبری قبضے میں رہنے والی اقوام کی حالت زار اور انکے حقوق کیطرف بین الاقوامی توجہ مبذول کروانا ہے سے کشمیری پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے ذریعےمقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو انکے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا حصول یقینی بنائے۔

 

پانچ اگست2019 سے پانچ اگست 2024تک

 

 

Comments are closed.