سیاسی تر بیت معذرت کے ساتھ
سیاسی تر بیت معذرت کے ساتھ
اے ایچ عابد
سیاسی تر بیت
وزیر اعظم چودھری انوار الحق کے پلندری جلسے میں معروف قوم پرست رہنما قاری نصیر کی سٹیج پر بیٹھے ہوئے تصویر دیکھ کر آج کل سو شل میڈ یا پر بڑی لے دےہو رہی ہے۔ایک طرف کچھ لوگ لال و لعل ہو ر ہے ہیں کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو جلسوں میں قاری صاحب کی تقریر پر جھو لے لعل ه ہو جایا کرتے تھے۔ویسے یہ بات تو درست ہے کہ اپنے کا رکنان کے دماغ کے خالی بلیک بو رڈ پر اتنی بھی نفرت نہیں لکھ دینی چا ہیے کہ وہ مٹنےہی نہ پائےاسی لیے سیاست میں میٹھے کے طور پر جو چیز شامل کی گئی ہے وہ ہے تحمل برد با ری برداشت اور شائستگی ۔افسوسناک بلکہ کسی حد تک تشویشناک بات ہے کہ لیڈروں نے بھی میٹھے چاولو ں میں بھی گرم مصا لحے ڈالنا شرو ع کر دیے یوں کارکنان کو تین ٹا ئم چٹ پٹا پسند آنے لگا۔اب لیڈ رؤ ں نے خود ہی اس چٹخارے کی عادت ڈالی ہے تو میٹھا میٹھا کھانے پر گالم گلوچ تو سننی پڑے گی۔قاری صاحب بہت بڑا مجمع لگایا کرتے تھے اور کل جب وہ پی ایم صاحب کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کر ر ہے تھے تو لوگوں کو غصہ تو آنا تھا ۔یہ نا ئینٹی ڈگری کا غصہ آپ کا اپنا تیار کردہ چو رن ہے۔اب اس کو رو رو کر سہنے کے بجائے ہنس کر برداشت کریں۔قوم کو اس حد تک نفرتوں کی طرف لے جانا ہی غلط ہے ۔سیاسی روا داری ہمارے خطے کی مثال تھی جسے سرخ رنگ نے پاؤں تلے روند ڈ الا۔کارکنان کا غصہ اور تنقید اس لیے درست ہے کہ ان کی تر بیت میں یہی چیز شامل کی گئی ہے کہ باقی سب دنیا غلط ہے اور صرف ایک قاری صاحب جو کہتے ہیں جو کرتے ہیں وہی درست بات ہے ۔سیانے بتا کر گئے ہیں کہ جو بو ؤ گے وہی کا ٹو گئے۔آج قاری صاحب اپنا بو یا ہوا کا ٹنے سے بالکل نہ گھبرا ئیں۔
سیاسی تر بیت معذرت کے ساتھ
سنجیدہ بیگم
خبر ہے کہ ایکشن کمیٹی راو لاکو ٹ شو کے بعد الیکشن لڑنے کے لیے 90 ڈگری پر چڑھ کر سنجیدہ ه ہوگئی ہے ۔اب ایکشن کمیٹی کو عوام سنجیدہ بیگم کے نام سے بھی پکار سکتے ہیں کیونکہ یہ سیاست میں بالکل كنوار ی بیگم ہے۔بالکل ان ٹچ زیرو میٹر سیاست ہے اس لیے یہ دلہن بننے کے لیے بہت بے چین ہیں۔جب یہ گھو ڑ ی چڑھیں گے تو ان کو پتہ چلے گا کہ شادی شدہ زندگی اوکنوا رگی میں کتنا فرق ه ہو تا ہے۔ویسے ان میں سے کچھ کو تو اس سیاسی شادی بارے اچھی طرح علم بھی ہے لیکن وہ اپنے تجربے سے باقی کمپنی کو باخبر نہیں کرنا چا ہتے کیونکہ انہیں معلوم ھے کہ اگر وہ تجربہ شیئر کر دیا گیا تو یہ کمپنی پہلے ہی ڈر جائے گی اور سیاست سے تائب ہوکر اپنے کام سے کام رکھنے کی طرف قدم اٹھا سکتی ہے۔ہمارے جنا ت ان کی اس خوش فہمی کی وجہ سے بہت ہنس ر ہےہیں ۔کسی بے رحم نے انہیں کہہ دیا ہے کہ چالیس میں سے 35 سیٹیں آپ کی پکی ہیں باقی دو چار ویسے ہی دبک کر آپ کے سامنے سجد ہ کر دیں گے۔خوش فہمی پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہ کمپنی آج کل بہت ہی خوش فہمی کا شکار ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شیخ چلی نے انڈے اور مرغی جیسا پلان تر تیب دیا تھا اور آخر میں ٹو کری کو خود ہی لت مار دی تھی۔یہ گروپ ٹو کری کو ویسے ہی لات ما ر دے گا۔آزاد کشمیر میں بالخصوص پونچھ میں بہت سے بڑ ے خان آ ئے بڑے بڑے جلسے ہوئے لیکن وہی مسیر جب الیکشن میں اترے تو ووٹ ملے پور ے سات درجن۔ان ما سیر وں اور کلچہ فروشوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا کچھ ہونے والا ہے۔ہم تو چراغ جلا کر سر عام رکھ ر ہےہیں اب کمپنی کی مرضی ہے کہ وہ روشنی پائے یا چراغ کو پھونک مار کر بجھا نے کی کو شش کرے۔
سیاسی تر بیت معذرت کے ساتھ
جنرل کونسل
خبر ہے کہ جماعت اسلامی کا پچا سو اں جنرل کونسل کا اجلاس۔امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر مشتاق کا موروثی سیاست ختم کرنے کا عزم۔جماعت اسلامی پاکستان ہو یا دنیا بھر میں مولانا مودودی کے نظر یا ت رکھنے والی تنظیمیں ہوں وہ موروثیت اور اس طرح کے دقیا نو سی نظام کے خلاف کام کر ر ہےہیں۔دوسری طرف جماعت اسلامی آزاد کشمیر جو آج اپنی 50 ویں جنرل کونسل منا رہی ہے وہ جماعت اسلامی نام تک تو خوبصورت ہے لیکن باقی عملی طور پر وہ باقی جماعتوں جیسی ہے بلکہ دو ہتھ آ گے ہے۔یہ صورتحال دوسری ہے کہ جماعت اسلامی چھپ چھپ کر موروثیت بھی کرتی ہے اور دیگر ا زم جن کے خلاف وہ نعرے مارتی ہے وہ سر انجام دینے میں پیش پیش ہے۔چھپ کر برادری ا زم یا کوئی اور آزم کرنے سے بہتر ه ہوتا ہے کہ سر عام کر لیا جائےجس سے ہر کسی کو خبر تو ه ہوگی کہ یہ فلا ں بندے کی جماعت ہے۔جیسے الیکشن میں جماعت اسلامی دو بند وں کی خاطر الیکشن سے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ایک امیر جماعت صرف مشتاق منہاس کے حق میں بیٹھ جاتے ہیں اور دوسرے امیر جماعت ایک نو کری کی خاطر الیکشن سے دوڑ جا تے ہیں۔پھر اس کے بعد رشتہ داروں کے لیے سہولت کا ری کرتے ہیں۔یہ ہیں موجودہ امیر جماعت جنہوں نے دو حکومتی دور دیکھے۔اپنا سیاسی سفر جو آٹھ ہزار ووٹو ں سے شرو ع کیا تھا وہ بڑھنے کے بجائے دو ہزار پر آ گیا۔اب وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کرقسمیں کھا ر ہےہیں کہ وہ حاجی بن گئے ہیں لیکن عوام ان کی بات پر یقین کرنے والی نہیں ہے کیونکہ بہت دھو کے ہوچکے ہیں۔خیر جنرل کونسل جشن منائے چند چہرے جماعت اسلا می میں رہ گئے ہیں جن میں سے چند ایک تو سر عام پی ٹی آ ئی کے گر وید ہ ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ مالی و اخلاقی دونوں اعتبار سے کرپٹ ہیں اور جماعت میں رہ کر بھی ہیر ا پھیر ی کے چکر میں رہتے ہیں جب کوئی شکار پھنس جائے تو بسم اللّہ کر کے شکار کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو چا ہیے کہ جماعت اسلامی کا کوئی اور نام رکھ لیں اور سر عام کریں جو باقی جماعتیں کر رہی ہیں۔
Comments are closed.