کمیونٹی ہال باغ کی نیلامی کو شہریوں نے مسترد کردیایہ شہدا زلزلہ کے طفیل ہمیں ملا ہے ۔ اس پر بلدیہ کا کوئی حق نہیں
باغ (سوار مغل) خواجہ جاوید اقبال کمیونٹی ہال کی نیلامی کسی صورت نہیں ہونے دینگے ، ہم اس شہر کے وارث ہیں ہماری مرضی کے خلاف جو جائے گا اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہونگے ۔
کمیونٹی ہال پبلک پراپرٹی ہے ۔یہ شہدا زلزلہ کے طفیل ہمیں ملا ہے ۔ اس پر بلدیہ کا کوئی حق نہیں کہ اسے کمائی کا ذریعہ بنائے ۔ مظفرآباد، راولاکوٹ، پلندری اور دیگر اضلاع میں شہریوں کی سہولت کے لیے بنائے گئے کمیونٹی ہال شہریوں کی سہولت کے لیے 5,10اور 15ہزار کرائے پر دئیے جاتے ہیں مگر باغ میں میئر بلدیہ کمیونٹی ہال کو ٹھیکے پر دے کر کمائی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں جس کو ہم کسی صورت نہیں ہونے دینگے ۔
ان خیالات کا اظہار تاجر رہنما سید عباس علی گردیزی نے پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔ ان کے ہمرا ہ سیاسی و سماجی رہنما سید آزاد گردیزی ، خواجہ ارشد ڈار و دیگر بھی موجود تھے ۔
سید عباس علی گردیزی نے کہا کہ ادارے شہریوں کو سہولیات فراہم کر تے ہیں مگر باغ میں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ بجائے سہولیات دینے کے جو شہریوں کی سہولت کے لیے میسر ہے اس پر بھی پیسے کمانے کے چکر میں ہیں ۔ بلدیہ باغ اپنا قبلہ درست کر ے اور فی الفور نیلامی روکے ورنہ راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے ۔
شہر اس قدر تنگ ہو چکا ہے کہ سوائے ہمارے پاس کمیونٹی ہال کے اور کوئی جگہ میسر نہیں ہے ۔ اس کو بھی بلدیہ ٹھیکے پر دے کر یہ سہولت چھینا چاہتی ہے جو کسی صورت قبول نہیں کرینگے ۔
بلدیہ باغ اپنی ٹوٹل آمدنی پبلک کے سامنے لائے اور یہ پیسہ کہاں کہاں خرچ ہوتا ہے اس کا حساب دے ۔ کروڑوں روپے کی سٹریٹ لائٹ غائب ہو گئیں جو لگی ہوئی ہیں وہ بھی نہیں چل رہی ۔ یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہو رہی کہ ان پر پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔
باغ شہر رات کو جنگل کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے کیونکہ ہر طرف اندھیرا ہوتا ہے ۔ کمیونٹی ہال نہ بلدیہ نے بنایا اور نہ ہی حکومت نے بنایا ۔ بلدیہ کو اختیار ہی نہیں کہ اس کی نیلامی کر سکے ۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی میئر کا کوئی حکومتی نوٹیفکیشن نہیں ہے مگر وہ سرکاری گاڑی لیکر پورے شہر میں گھوم رہے ہیں ۔ جنگلات روڈ پر جنگلات کے دفتر کے آگے دوکانیں راتوں رات تعمیر ہو گئی اور ایک سال بند رہنے کے بعد کرائے پر لگ گئی ۔
بلدیہ بتائے کہ وہاں قبضہ کس نے کیا ؟؟ انہوں نے شہریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ شہری یک جان ہو جائیں اور ان کے آگے کھڑے ہوں تا کہ ان کو سمجھ آئے کہ یہاں انسان بستے ہیں اور اپنا حق لینا جانتے ہیں ۔ پراپرٹی پر دوہرے ٹیکس لے رہے ہیں یہ قانون کہیں بھی موجود نہیں ہے مگر باغ میں ہے ۔
ہر طرف سے مال جمع کیا جاتا ہے اور وہ مال جاتا کدھر ہے یہ کسی کو نہیں پتہ ۔ جی پی او کے پاس دوکانیں بنانے کی این او سی کس نے جاری کی اور دوکانیں بنی عوام جواب مانگ رہے ہیں ۔ باغ میں بہت سارے مسائل ہیں ۔خدارا باغ کے شہریوں کو جینے کا حق دیا جائے اور کمیونٹی ہال کی نیلامی منسوخ کی جائے ورجہ ہم راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے ۔