مسلم لیگ ن آزاد کشمیرکا احتجاج اورعوامی تحریک کی حمایت کا اعلان
کوٹلی(بیورورپورٹ) صدر مسلم لیگ ن آزاد کشمیر شاہ غلام قادر نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کریں یا تحریک چلائیں ہم حمایت کریں گے لیکن نظریاتی تخریب کاری قبول نہیں۔
کسی پر غداری کا الزام نہیں لگاتے لیکن مطالبات کے حق میں قومی دنوں کو متنازعہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ آزاد کشمیر کے اندر مطالبات کی آڑ میں پاکستان مخالف بیانیہ بنانے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا مقابلہ مسلم لیگ ن ہر فورم پر کرے گی۔ جائز مطالبات کہ ہم بھی حامی ہیں۔ مسلم لیگ ن پر سہولت کاری کا الزام لگانے والے نابلد ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سابق سینیئر وزیر ملک محمد نواز خان، ممبر کشمیر کونسل حنیف ملک،سابق وزیر حکومت سردار فاروق سکندر،صدر مسلم لیگ ن ادریس حیات راجہ، جنرل سیکرٹری ناصر کمال یوسف ایڈووکیٹ، سٹی صدر راجہ گلفراز خان، سابق سٹی صدر سردار زاہد، یوتھ کوآرڈینیٹر فاتح محمود کیانی، مرکزی رابطہ سیکرٹری سردار مظہر محبوب ایڈووکیٹ، حلقہ صدر سید اظہر حسین شاہ کے ہمراہ مقامی ہوٹل میں سٹی صدر کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں ڈسٹرکٹ پریس کلب کے ممبران کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے دیگر ضلعی و حلقہ عہدیداران سمیت کونسلرز حضرات اور کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ صدر جماعت شاہ غلام قادر نے کہا کہ 1947 میں جب کشمیر آزاد ہوا تو اس وقت ہمارے پاس کیا تھا اور آج کیا ہے اس کا غیر جانبدارانہ موازنہ کریں۔ آزاد کشمیر میں ہزاروں کلومیٹر سڑکیں بنائی گئیں، سکولز کالجز بنائے گئے،
ہسپتالوں میں سہولیات کے حوالے سے تو مطالبات جائز اور قابل قبول ہیں لیکن اس پار اور اس پار آزادی لینے والے سن لیں مقبوضہ کشمیر میں کتنے کشمیری چھوٹے چھوٹے مقدمات میں قید ہیں جبکہ یہاں آزاد کشمیر میں مکمل آزادی ہے۔
45 لاکھ کے قریب عوام کی فوری شنوائی ہوتی ہے۔ مئی 2024 کو چلنے والی تحریک کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے آٹا اور بجلی کی مد میں کثیر رقم دی۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کے خلاف باتیں کرنے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔
پاک فوج میں آزاد کشمیر کے جوان بڑی تعداد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور کشمیریوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی عظیم سپوت اس وقت کور کمانڈرز کے عہدوں پر ملکی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
اور بے شمار نے شہادت کا رتبہ پایا۔اپنے مطالبات کے لیے تحریک چلائیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی دنوں کو ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے اور اس کا فائدہ کس کو پہنچایا جا رہا ہے ہم کسی کی کردار کشی یا غداری کے سرٹیفیکٹ نہیں دے رہے البتہ غلط اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔
احتجاج کی آڑ میں نظریاتی تخریب کاری کو فروغ دینا ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں کسی بھی جماعت کا وزیر اعظم ہو اس کی عزت کرنا ہم پر لازم ہے چونکہ ہر مشکل گھڑی میں حکومت اور عوام پاکستان ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ مقبوضہ کشمیر کی حالت سب نے دیکھ لی کہ وہاں کتنا ظلم ہو رہا ہے۔
ہم اپنے انتظامی ڈھانچہ برقرار رکھیں گے۔ صوبہ بنانے کی افواہیں بے بنیاد ہیں ریاست جب آزاد ہو گی تو عوام کی مشاورت کے بعد ہی فیصلہ ممکن ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس عدالت میں چیلنج ہو گیا ہے فیصلہ معزز عدالت کرے گی آزادی رائے کے حق میں ہوں لیکن بے ہنگم بے ہودگی والی آزادی کے خلاف ہوں۔
جائز بات مانی جاسکتی ہے ناجائز نہیں۔ کسی دوسری پارٹی کے نہیں اپنی جماعت کا حساب دینے کے پابند ہیں۔ پاکستان کے خلاف بیانیہ حکومت کی مس ہینڈلنگ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان ہمارا وکیل ہے اس کے علاوہ پوری دنیا میں ہماری وکالت کرنے والا کوئی نہیں جو ہمارا مقدمہ لڑ سکے اب اگر کسی کے پاس کوئی متبادل موجود ہے تو پیش کرے۔ آزاد کشمیر میں جب غازی ملت سردار ابراہیم خان کی سربراہی میں حکومت بنی تو ان کی کابینہ کے ہر ممبر نے اس ریاست کی آزادی کے لیے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنا حصہ ڈالا۔ پرجا سبھا میں سردار فتح محمد کریلوی اور پلندری سے کرنل خان محمد خان دو ممبر تھے۔ دونوں حضرات نے جب دو بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان اور جسٹس ریاض احمد اس علاقے میں آئے تو کہا کہ یہ ہم سے بہتر نمائندگی کر سکتے ہیں اس لیے ہم الیکشن نہیں لڑیں گے بلکہ ہماری جگہ یہ حصہ لیں گے۔
سیاست میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان، مولانا محمد یوسف، کے ایچ خورشید، چوہدری غلام عباس اور دیگر اس تحریک کا حصہ بنے۔ آج ان عظیم لوگوں کے خلاف ایک طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو کہتا ہے کہ یہ سہولت کار تھے تو سوال یہ ہے کہ کس کے سہولت کار تھے؟
اس وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ تیسرا کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔نیشنل کانگریس نے قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کی مخالفت کی اور ہندوستان کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اس وقت کی مسلم کانفرنس نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ان کا ساتھ دیا۔
اس سلسلہ میں قائد اعظم کی ریاستی لیڈران کے ساتھ خط کتابت موجود ہے۔ آج کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیوں شامل ہوئے یا ہمارے اسلاف کی کوئی قربانی نہیں ہے۔ آج جس قسم کا ماحول بن چکا ہے وہاں مجھ سمیت ہر شہری کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔
صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب جواب میں کہا کہ وزراء یا ایم ایل اے اشرافیہ کی لسٹ میں نہیں آتے ججز ریٹائر منٹ کے بعد دس دس لاکھ پینشن لیتے ہیں۔ ہمیں کیا ملتا ہے۔ ایکشن کمیٹی کے ممبران کو حکمرانوں سے بات کرنی چاہیے تھی نہ کہ بیورو کریسی سے بات کرتے۔
زاہد امین کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔احتساب بیورو والوں کے بار بار طلب کرنے پر نہ حاضر ہوئے تو احتساب بیورو والوں نے زیر حراست لے کر عدالت میں پیش کیا اور یقین دہانی پر رہا کر دیا گیا۔ مسلم لیگ ن میں کوئی تناؤ یا کھینچا تانی نہیں۔
ہم متحد ہیں جماعت جس کو ٹکٹ دے گی وہی الیکشن میں حصہ لے گا۔ صدر مسلم لیگ ن شاہ غلام قادر کے کوٹلی آمد پر سٹی صدر کی قیادت میں مختلف مقامات پر شاندار استقبال کیا گیا۔صدر جماعت نے دورہ کوٹلی کے دوران ڈسٹرکٹ بار کوٹلی سے خطاب اور مختلف سیاسی سماجی تقریبات میں بھی شرکت کی۔
آرٹیکلز 370 اور 35 اےکےخاتمہ سے مسئلہ کشمیر ختم نہیں ہوا