آہ،میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئیگی

آہ،میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئیگی
تحریر شمیم اشرف

میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئے گی،یہ جملہ دل کو چھلنی کردیتا ہے ۔یہ الفاظ ایک بدقسمت باپ کے ہیں جس نے اپنی بیٹی کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ وہ ملک وقوم اور دکھی انسانیت کی خدمت کر سکے۔ لیکن بد نصیب باپ کو کیا معلوم تھا کہ9اگست کو ناشتے کی میز پر اسکی معصوم بیٹی اسکے ساتھ نہیں ہو گی بلکہ اب کبھی گھر لوٹ کے نہیں آئے گی کیونکہ بابا کی لاڈلی پری ،اس کے جگر کا ٹوٹا درندوں کی ہوس کا نشانہ بن چکی تھی۔دوسروں کے زخموں پر مرہم لگانے والی بیٹی کو زخموں سےچور اور خون میں لت پت دیکھ کر اس باپ پر کیا بیتی ہو گی یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے ۔جس باپ نے بیٹی کو ماں کی ڈانٹ اور زمانے کی تپتی دھوپ سے دور رکھا ہو گاوہ درندوںسے اسے کیوں نہ بچا سکا۔یہ احساس اس باپ کو جیتے جی مار رہا ہو گا۔
9 اگست2024 کوایک اور معصوم کلی مومیتا دیبناتھ کو درندوں نے بری طر ح مسل دیا۔کلکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج میںخاتون ڈاکٹر مومیتا دیبناتھ کے ساتھ زیادتی اور قتل کے ہولناک واقعے سے پورا بھارت دہل گیا اور احتجاج کی لہر پیدا کردی۔ 31 سالہ معصوم ٹرینی ڈاکٹر کی بے حرمتی اور بےدردی سےقتل پر ہردل رنجیدہ اورہرآنکھ اشک بار ہے ۔ یہ قتل صرف ایک معصوم ڈاکٹر کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قتل، کالج انتظامیہ سیکورٹی اداروں،پولیس، بھارتی حکومت اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سفاکی کے مجرم صرف اجتماعی زیادتی اور قتل کرنے والے درندے نہیں بلکہ آر جی کار میڈیکل کالج کی انتظامیہ اور حکومت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے ہسپتال کے احاطے میں اجتماعی زیادتی اور قتل نے خواتین ہیلتھ ورکرز کی حفاظت پر سوال کھڑے کر دئیے ہیں ۔آر جی کار میڈیکل کالج کا شمار مغربی بنگال کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے جسے مغربی بنگال کی حکومت چلاتی ہے، 26 ایکڑ پر پھیلے ہسپتال میں مریضوں کے لیے 1200 بسترہیں او پی ڈی میں روزانہ اوسطاً 2500 اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں1000 سے زائد مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں لیکن افسوس! اتنے بڑے ہسپتال میں 36 گھنٹوں کی شفٹ میں لوگوں کو بیماریوں سے نجات دلانے والی خواتین ڈاکٹرز ،پیرامیڈیکل سٹاف کے لیے آرام کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے 31 سالہ ڈاکٹر 36 گھنٹے کی سخت شفٹ کے بعد ہسپتال میں خواتین کے لیے آرام کی علیحدہ جگہ نہ ہونے کے باعث ایک سیمینار ہال میں آرام کرنے چلی گئی اور اگلی صبح ہال میں پوڈیم کے قریب مومیتا دیبناتھ کی نیم برہنہ زخموں سے چور لاش ملی جس کی پولیس نے تصدیق کی کہ انہیں ریپ کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا ۔بابا کی پری کو کیا معلوم تھا کہ میٹنگ ہال میں درندے شکاری اس کا شکار کرنے کو بےتاب بیٹھے ہیں ۔اور یہ آرام اسکے لیے درد ناک عذاب بن جائے گا۔

آہ،میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئیگی

جنسی تشدداور قتل کے واقعات میں آئے روز اضافہ پوری دنیا کا مسئلہ ہےلیکن آہ، اقدامات نہ ہونے کے برابر ایسے المناک واقعات پراظہار افسوس ،احتجاجی مظاہرے،دھرنے اور ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دینے،مقتولہ کو انصاف دلانے کے اعلانات اور بس فرض ادا ہو گیا۔ ایسے واقعات پر نوٹس لینا اور قانون سازی کرنا صرف اخبارات کی سرخیوں ،نیوزچینلزکی ہیڈلائنز اور سوشل میڈیا تک محدود ہے عملی طور پر اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔سفاکی کا یہ واقعہ 2012 کے دہلی گینگ ریپ کیس کی یاد دلاتا ہے 2012 کے دل دہلا دینے والے واقعہ نے بھی ہر انکھ کو اشک بار کردیا تھا جب 16 دسمبر 2012 کو نئی دہلی میں سڑک پر چلتی بس میں5 درندہ صفت مردوں نے 23 سالہ فزیو تھراپسٹ ٹرینی اور ان کے مرد دوست کو اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا اورر دونوں کو لوہے کی سلاخ سے تشدد کر کے سڑک پر پھینک دیا تھا۔23 سالہ فزیو تھراپسٹ ٹرینی تقریباً دو ہفتے بعد سنگاپور کے ہسپتال میں اندرونی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔اسوقت بھی بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے کہ قانون سازی کریں گے ملزمان کو عبرت کا نشان بنا دیں گے لیکن2012 کے بعد سے بھی کچھ نہیں بدلا ۔آج بھی دنیا بھر میں بچیاں غیر محفوظ ہیں ۔بھارتی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق2022 میں ریپ کے کل 31,516 واقعات ریکارڈ کیے گئے جو اوسطاً 86 کیسز یومیہ بنتے ہیں۔پاکستان بھر میں بھی خواتین پر تشدد ، ریپ، قتل، تیزابی حملے، جبری شادی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ورلڈ پاپولیشن ریویو اور وائزووٹر کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ ریپ کے اعداد و شمار 2023 کے مطابق 144 ممالک کی فہرست میں پاکستان 91 ویں نمبر پر ہے جہاں ہر 1 لاکھ میں 3 افراد کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے سب سے زیادہ ریپ کیسز جنوبی افریقہ کے ملک بوٹسوانا میں سامنے آئے ہیں جہاں ہر 1 لاکھ میں 96 افراد کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ برمودا اور عمان میں کوئی ریپ کیس نہیں آیا جبکہ 8 کیسز کیساتھ بنگلادیش 62 ویں اور انڈیا 2 اعشاریہ 63 کیسز کیساتھ 94 ویں نمبر پر ہے۔پاکستان پینل کوڈ 1860 کے سیکشن 376 کے مطابق ریپ کے مجرم کو سزائے موت یا 10 سال سے کم کی قید کی سزا دی جائے گی اورجرمانہ بھی عائد کیا جائیگا جبکہ اجتماعی زیادتی کی صورت میں مجرم کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ قانون تو ہر ملک میں موجود ہیں لیکن پھر بھی ایسے واقعات میں دن بدن اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون پر عملدرآمدنہیں ہو تا۔اور یہی وجہ ہے کہ درندے سرعام دھندناتے پھرتے ہیں ۔
اجتماعی زیادتی اور قتل کے سفاکانہ واقعات روکنے کے لئے عوام میں شعورپیدا کرنے کےلئےآگاہی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ مناسب قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے ایسے کیسز کی تفتیش بوسیدہ پولیس رولز کے مطابق نہیں بلکہ جدید سائنسی طرز پر ہونی چاہیے تاکہ مجرموں کو نشان عبرت بنایا جا سکے اور متاثرہ افراد کو انصاف مل سکے۔

 

آہ،میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئیگی

Comments are closed.