فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس پالیسی کا مقصد دفاعی صلاحیت برقرار رکھنا

فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس پالیسی کا مقصد دفاعی صلاحیت برقرار رکھنا

 

لاہور(کشمیر ایکسپریس نیوز)فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس پالیسی کا مقصد دفاعی صلاحیت برقرار رکھنا

جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے تزویراتی پیچیدگیوں کے مطابق جدید حکمت عملی اپنانے کی ضرورت“ کے عنوان پر سیمینار

سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز (CASS) لاہور نے 10 ستمبر 2024 کو ”جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے تزویراتی پیچیدگیوں کے مطابق جدید حکمت عملی اپنانے کی ضرورت“ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس سیمینار میں جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے پیچیدہ اقدامات کا جائزہ لیا گیا اوراس تناظر میں بھارتی جارحیت اور ٹیکنالوجی کے باعث جدید پیش رفت کے اثرات پر غوروخوض کیا گیا۔ محترمہ نداء شاہد، سینئر ریسرچر،CASS لاہور نے تقریب کے آغاز میں سیمینار کے مقاصد اور عنوان کا تعارف پیش کیا۔

 

نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر) خالد قِدوائی نے کلیدی خطاب کیا۔ انہوں نے جوہری اثاثوں کے تحفظ اور موئثر دفاعی حکمت عملی پر مشتمل پاکستان کی فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس (FSD) پالیسی سے متعلق گفتگو کی۔اس پالیسی کا مقصد بھارت کی ایٹمی پالیسی کے جواب میں قابل اعتماد مگر کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھنا ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی جوہری اثاثوں کے تحفظ کی پالیسی (CMD) کا تسلسل ہے۔اسلحہ کنٹرول اور تخفیف اسلحہ پر بات کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ ان دونوں میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ خطے میں تزویراتی استحکام بگاڑے بغیر جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کی پالیسی پاکستان کے لیے قابل قبول ہےلیکن تخفیف اسلحہ ایک ناقابل عمل اور ناجائز مطالبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی FSD پالیسی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عالمی اور علاقائی تبدیلیوں کے باوجود جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام برقرار رکھا جائے گا۔بایں وجہ بھارت کو باور کرانا چاہیے کہ خطے میں تزویراتی سطح پر سیاسی دھونس دھمکی اور سیاسی بیان بازی کوئی پالیسی نہیں ہے ، اس سے گریز کا رویہ اپنانا چاہیے۔
اسٹریٹجک ویژن انسٹی ٹیوٹ (SVI) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نعیم سالک نے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے تناظر میں میزائل ٹیکنالوجیز میں حالیہ پیش رفت سے جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والی تزویراتی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی۔ جدید میزائل ٹیکنالوجیز، جیسے ملٹی پل انڈیپنڈنٹلی ٹارگیٹیبل ری انٹری وہیکلز (MIRVs) اور ہائپرسونک کروز میزائلوں کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ ان میزائیل ٹیکنالوجیز سے نہ صرف تزواراتی سطح پر ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہوگا بلکہ جنوبی ایشیا میں موجودہ اسلحہ کنٹرول فریم ورک کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔

فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس

سابق سفیر اور اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (SPD) کے مشیر ضمیر اکرم نے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے توازن سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کےاقدامات صرف اس وقت موئثر ثابت ہوسکتے ہیں جب دونوں فریق مساوی بنیادوں پر باہمی عمل درآمد کے اصول کی پابندی کریں۔ انہوں نے کہا کہ جن اقدامات پر باہمی طور پر اتفاق رائے چلا آرہا تھا،اب وہ معاہدے میزائیل ٹیکنالوجیز میں بھارت کی غیر منصفانہ پیش رفت جیسے بیلسٹک میزائل ڈیفنس (BMD) اور 2019 کے اینٹی سیٹلائٹ ویپنز (ASAT) تجربوں کے باعث غیر موئثر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی بھارتی حکومتی عہدے دار اپنے بیانات میں عندیہ دے چکے ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کی نو فرسٹ یوز پالیسی(NFU) کو حالات کے تحت کسی بھی وقت نظرثانی کرسکتا ہے ۔
(CASS)، لاہور کے صدر ایئر مارشل(ر) عاصم سلیمان نے اختتامی خطبے میں جنوبی ایشیا میں تیزی سے بدلتے علاقائی تزویراتی استحکام کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ جدید حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے مستحکم اور پُرامن مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے برابری کی سطح پر مذاکرات، اعتماد سازی اور خطرے میں کمی کے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مزید براں ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت کے حالیہ اقدامات کے پیش نظر خطے میں جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی اولین ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔

فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس

 

Comments are closed.