دو اور دو گیا رہ
دو اور دو گیا رہ
معذرت کے ساتھ
اے ایچ عابد
خبر ہے کہ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے آزاد کشمیر میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔یہ خبر نہ جانے کون سی والی ن لیگ نے جاری کی ہے۔جس نے بھی جاری کی ہے وہ ن لیگ بہت ہی شرا رتی ہے ۔جس نے بہتوں کے ترا ہ نکال دیے ہیں۔ایک خبر ہمارے جنات نے بھی دی ھے ہے کہ اس بار ن لیگ کے کئی راہنما ٹائپ کے راہزن آخری بار اسمبلی میں ہیں۔اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی اسمبلی چڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکیں گے۔ان میں ایک سابق وزیر اعظم بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے پا ؤ ں پر خود کلہاڑی ماری ہے انہوں نے تو اپنے آپ کی کو پہلے ہی آخری وزیر اعظم قرار دے کر اتنی اننی مچا ئی ہے کہ خدا کی پناہ۔ہر محکمے میں اپنے نکھٹو بھرتی کیے لوگوں کے ساتھ نا انصا فيا ں کیں۔ظلم کیا۔اب بار ان کی پکی چھٹی ہے اور وہ اسمبلی کو روزانہ باہر سے آ کر دیکھا کریں گے ۔یہ سہولت پیپلز پارٹی انھیں دے گئی ہے۔اس کے علاوہ وہ اگر موجودہ پوزیشن میں الیکشن ہوتے ہیں تو مقابلہ کچھ یو ںہو گا۔مہا راج کا مقابلہ شاہ جی سے رزلٹ صاحبزادہ صاحب جیت گئے ۔فاروق سکندر کا مقابلہ راجہ نصیر سے نتیجہ جاوید بڈ ھا نوی صاحب جیت گئے۔مہا راج کا مقابلہ شاہ جی سے اور پی پی جیت گئی۔طارق فاروق کا مقابلہ مہا راج سے انوار الحق جیت گئے۔ مہا راج کا مقابلہ بیرسٹر گیلانی سے خواجہ صاحب جیت گئے۔کچھ اس طرح کے الیکشن ہوں گے۔اس کے بعد ن لیگ کی جو سیٹیں ہوں گی وہ ہوں گی سنگل کالم ۔پھر ن لیگ کو مسلم ك کانفرنس بھی کہہ سکتے ہیں۔بلکہ یہ دونوں مل کر اپنی سیٹیں یو ں گنا کریں گی دو اور دو گیا رہ۔اس لیے دونوں مل کر کسی ونر پا رٹی کو بلیک میل کیا کرناکہ ہماری تو گیارہ سیٹیں ہیں ایک صدر دے دیں ایک وزیر اعظم دے دیں اور باقی وزا رتیں آپ خود رکھ لیں۔ن لیگ یہ لطیفہ سن کر ہنسے اور روئے لیکن اس وقت کا رز لٹ یہی ہے۔
جتھے مردہ
صدر پی ٹی آ ئی آزاد کشمیر سردار عبدلقیوم نیازی نے کہا ہے کہ گرفتار کا ر کنوں کو ر ہا نہ کیا گیا تو آزاد کشمیر بھر میں احتجاج کریں گے۔جناب والا نے ه ہو میو پیتھی دھمکی دی ہے بلکہ چٹنی و اچار قسم کی دھمکی بھی کئی جا سکتی ہے۔پچھلے وقتوں میں اس طرح اخباریں تو نہ تھیں لیکن لوگ بات کا جو جواب دیتے تھے وہ تاریخ میں محاوروں کی شکل میں محفوظ ہے۔جیسے نیازی صاحب جیسا بیان اگر کسی نے دیا ہے تو اس کا جواب یو ں موجود ہے کہ جتھے مردہ اؤ تھے ہی جا کے پٹو۔ترجمہ یہ ہے کہ جہاں وفات ہوئی ہے وہاں جا کر روئیں۔نیازی صاحب بھی بھلے آدمی ہیں گرفتاری ہوتی ہے آ ریہ محلہ اور اور احتجاج کی کال دے ر ہےہیں مظفر آباد کا نیا محلہ۔بھلا کوئی جو ڑ هہو تا ہے کوئی میل هہو تا ہے کوئی میلا پ هو تا ہے۔یہاں کوئی بات جڑ تی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔خیر نیازی صاحب سے گزارش ہے کہ وهہ ہمت کریں راستہ ہم دکھا دیں گے کرایہ ان کا اپناہوگا خرچہ اپنا کرنا پڑے گا۔اگر سامنے سے پتھر ڈانگ آ گئی تو سر بھی اپنا هہو گا۔چلیں اب مشورہ سنیں اور وہ بھی بالکل مفت میں بلکہ ساتھ دس روپے بھی ہوں گے لیکن وصولی کٹا ریا ں سے خود کرنا پڑے گی۔جناب والا بندے اکٹھے کریں اور یہ مظاہرہ ڈھوک شیر ا ں والا جا کر کرنے کے بجائے ڈی چو ک کریں۔لیکن پھر جو هہو گا وہ آپ سمجھدار ہیں۔قوا لی هو گی۔جھولے جھو لے لال جلندر۔پولیس نہ پوچھے گی سوال قلندر۔جس نوں وی محبت خان دی ۔رہ جانی اے دل دے اندر جھو لے جھو لال جلندرڈی چو ک میں پولیس قلندر۔ما رے ڈنڈ ے اور کرے بند جیل دے اندر۔جھو لے لال جلندر ۔خیر آپ یہ قوا لی بالکل نہ گا ئیں کیوں کہ بڑ ھا پے کا ایک ایک آزادی سے انجو ا ے کریں اور آپ کا پلان بالکل درست ہے ہر جمرات کو درہ شیر خان میں کالی پٹی باندھ کر احتجاج شرو ع کر دیں۔
ٹھیکیدار
خبر ہے کہ کنٹر یکٹر ایسوسی ایشن کا ادا ئیگیو ں تک مظفر آ باد میں دھرنے کا اعلان۔چلیں جی آج ہم ایک اور انتہا ئی لاڈ لی مخلوق کا ذکر کرتے ہیں جس میں ایسے لوگ شامل ہیں جن کو من و سلوا اگر نہ بھی دیا جائے تو کم سے کم حکومتی خرچے میں سے بہت سے پیسے نکال کر دیے جا ویں۔یہ بہت ہی لاڈلی مخلوق ہے بالکل ایسی ہے جیسے یہود اللّہ کی لاڈلی قوم تھی اور پھر لاڈ پیا ر جب حد سے بڑھا تو وہ قوم بگڑ گئی۔اسی طرح یہ قوم بھی بگڑ گئی ہے۔ابھی تو یہ بندر اورسانڈ ے نہیں بنے لیکن سانپ دو منڈ یا بن کر خزانے کو لو ٹ ر ہےہیں۔یہ ٹھیکیدار طبقہ حکومتی لوگوں کا فرنٹ مین ه ہو تا ہے جو ان کو حصہ دے کر کام کرتا ہے ۔ٹھیکے کے اندر منسٹر وں کے شیئرز هو تے ہیں۔ہر حکومت ٹھیکیداروں کی مدد سے بنتی ہے ۔پچھلی مہا راج کی حکومت میں تو عثمان کو ڈائریکٹ ایک ٹھیکیدار کے سائے میں چھو ڑ ا گیا تھا تاکہ مال بھی آ وے اور ٹر یننگ بھی ہو۔آج عثمان خود بتا رہا ہے کہ وہ ٹھیکیدار ی کی سند لے چکا ہے اور وہ ٹھیکیدار آج بھی حکومتی صفو ں کے اندر بیٹھے ہوئے عیاشی کر ر ہےہیں۔البتہ جو ٹھیکیدار سڑ کو ں پر ہیں وہ شاید حکومتی چھتری سے محروم ہیں یا ان کی ڈیل نہیں هو رہی۔کسی نے بد عہد ی کی ہوگی یا کمیشن میں سے حصہ لیٹ کیا ہے کچھ تو پردہ داری ھے لیکن تاریخ میں پہلی بار ایسا کچھ ہوا ہے کہ ٹھیکیدار بھی احتجا ج پر مجبور ہیں۔یہ اتنے بڑے حاجی ہوتے ہیں کہ سڑک بنتے ساتھ ہی ٹو ٹ پھو ٹ شرو ع ه ہو جاتی ہے ۔اس کے باوجود ان سے کوئی نہیں پوچھتا۔ان کو کام خراب کرنے کے بھی پیسے ملتے ہیں اور اب نہ جانے کس چکر میں ان کو احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔لگتا ہے حکومت نے انھیں کہا ہے کہ پیسے تب ملیں گے جب کام پورا ه ہوگا۔یو رپ میں سڑک یا گلی ایک بار بنتی ہے اس کے بعد بجٹ انسانو ں پر خرچ ه ہوتا ہےلیکن یہاں سڑ کیں ہی بنتی رہتی ہیں اور ٹھیکیدار امیر هہوتے رہتے ہیں
Comments are closed.