خزانہ خالی کیوں ہوا؟
خزانہ خالی کیوں ہوا؟
شمیم اشرف
پاکستانی معاشرہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے، اور ان بحرانوں کی جڑ میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ گزشتہ روز میں نے بطور ایک عام شہر ی سرکاری اعدادوشمار کے ذریعے حیرانگی سے ایک سوال پوچھا کہ اب سمجھ آئی کہ خزانہ کیوں خالی ہوا ؟؟مگر افسو س سوشل میڈیا کے دانشوروں کو اس پوسٹ کے آخر میں سوالیہ نشان نظر نہیں آیا یا شاہد ہم سوالیہ نشان(؟؟؟؟)کے معنی ہی نہیں جانتے ۔پی ٹی آئی والوں نے لفافہ صحافی کے القابات سے نوازا اور گندی گالیاں دیں حتی کہ یہاں تک کہہ دیا کہ میرا میک اپ خزانہ خالی ہونے کا سبب ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے دانشوروں نے کے پی کے کے خزانے کے اعدادوشمار طلب کر کے مجھے پی ٹی آئی کا نمائندہ بنا دیا۔
سوشل میڈیا پر اس پوسٹ کے ذریعے عوام سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ خزانہ خالی کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے جو رویہ اپنایا، وہ ہمارے معاشرتی زوال کی ایک بڑی مثال ہے۔اس پوسٹ کا مقصد عوام میں شعور پیدا کرنا اور سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک تعمیری مکالمے کا آغاز کرنا تھا، لیکن یہ مکالمہ گالی گلوچ، طنز و تنقید اور شخصیت پر حملوں میں بدل گیا۔ یہ رویہ نہ صرف ہمارے معاشرتی زوال کی علامت ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس حد تک تعصب کا شکار ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی وابستگی اکثر جذباتی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ لوگ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں تنقیدی گفتگو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر کسی نے کسی جماعت کے بارے میں سوال اٹھایا، تو اسے فوراً مخالف جماعت کا حامی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہی کچھ مذکورہ پوسٹ کے ساتھ ہوا، جہاں کچھ لوگوں نے مجھےلفافہ صحافی کہہ کر تذلیل کی ، جبکہ دوسرے گروپ نے بھی مخالف جماعت کا سمجھ کر پوسٹ کےمقصد کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ یہ رویہ تعمیری مکالمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
ہماری عوام میں سیاسی اور معاشی معاملات پر گہرائی سے سمجھ بوجھ کی کمی ہے۔ لوگ سرکاری اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے یا معروضی انداز میں مسائل کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً، جب کوئی عوامی مسئلہ یا سوال اٹھایا جاتا ہے تو لوگ اسے ایک ذاتی یا سیاسی حملہ سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ اکثر منفی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گالی گلوچ، شخصیت پر حملے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا عام ہو چکا ہے۔ مذکورہ پوسٹ پر بھی یہی ہوا، جہاں میک اپ تک کو طنز کا نشانہ بنایا گیا، بجائے اس کے کہ موضوع پر بات کی جاتی۔
پاکستان میں عوامی شعور بیدار کرنے کی کوششوں کو اکثر سیاسی رنگ دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ یہ عوام کو اپنے مسائل پر غور کرنے سے بھی دور رکھتا ہے۔کیا ہم درست سمت میں جا رہے ہیں؟یہ سوال نہایت اہم ہے۔ معاشرے کی ترقی کا انحصار عوام کے رویے اور اجتماعی شعور پر ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، جب ہم سوال کرنے والوں کو غدار یا مخالف سمجھتے ہیں، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہم درست سمت میں نہیں جا رہے۔ایک مہذب معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں ہر فرد کو سوال کرنے اور جواب طلب کرنے کی آزادی ہو۔ اگر عوام اپنے حکمرانوں سے سوال نہیں کریں گے تو ان کے مسائل کا حل کیسے نکلے گا؟ لیکن ہمارے ہاں سوال کرنے کو اکثر بدتمیزی یا مخالفت سمجھا جاتا ہے، جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے اور تعمیری مکالمے کو فروغ دیا جائے۔ جب تک ہم دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی عادت نہیں اپنائیں گے، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔کسی کی شکل و صورت، لباس یا ذاتی زندگی پر حملے کرنا نہایت غیر مہذب رویہ ہے۔ مسائل پر بات کرنے کے بجائے شخصیت کو نشانہ بنانا معاشرتی زوال کی ایک بڑی علامت ہے۔
تعلیمی نظام میں بہتری معاشرتی شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں بہتری لانا ضروری ہے۔ لوگوں کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ اختلاف رائے کو کیسے برداشت کیا جائے اور مسائل پر تعمیری بحث کیسے کی جائے۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور نفرت انگیز مواد کے بجائے معلوماتی اور تعمیری مواد کو فروغ دینا چاہیے۔ حکومت، میڈیا اور عوام کو مل کر اس حوالے سے کام کرنا ہوگا عوام کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ سوال اٹھانا ہر شہری کا حق ہے اور اس کا مطلب کسی سیاسی جماعت کی مخالفت یا حمایت نہیں ہوتا۔ یہ شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا اور سول سوسائٹی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور حامیوں کو تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ دوسرے کی رائے کا احترام کریں اور مسائل پر بات کرتے وقت اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑیں ۔خزانے کی خالی ہونے کی وجوہات پر سوال اٹھانا ایک مثبت قدم تھا، لیکن عوام کے رویے نے یہ ظاہر کیا کہ ہم بطور معاشرہ کس حد تک زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تعصب اور جذباتیت سے باہر نکل کر مسائل کا معروضی تجزیہ کرنا ہوگا۔ سوال کرنا، اختلاف رائے رکھنا اور مکالمے کو فروغ دینا ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔بطور معاشرہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسرے کی رائے کو برداشت کرنا، اس پر غور کرنا اور اس سے سیکھنا ہماری اجتماعی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ہم یہ رویہ اپناتے ہیں، تو نہ صرف ہماری سیاست بہتر ہوگی بلکہ ہمارا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔