2نومبرصحافیوں کیخلاف جرائم کےخاتمےکا عالمی دن
2نومبرصحافیوں کیخلاف جرائم کےخاتمےکا عالمی دن ، عالمی سطح پر اقدامات اور شعور بیداری کی ضرورت
تحریر واہتمام
شمیم اشرف
صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن ہر سال 2 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس دن کی مناسبت سے صحافتی تنظیمیں سیمینارز اور ریلیاں منعقد کرتی ہیں تاکہ صحافیوں کو درپیش خطرات، مسائل اور چیلنجز پر توجہ دی جا سکے۔صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف تشدد، جبر اور ہراسانی کے واقعات کو روکنے کے لیے شعور بیدار کرنا اوراور ان کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر مؤثر اقدامات کرنا ہے یہ دن 2013 میں اقوام متحدہ نے اس وقت منظور کیا جب فرانس میں قتل کیے گئے دو صحافیوں کے بعد صحافیوں کے تحفظ کا مسئلہ زیادہ شدت سے سامنے آیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے عالمی دن کو منانے کا اعلان کیا تاکہ صحافیوں کے خلاف تشدد اور بدسلوکی کو عالمی توجہ کا مرکز بنایا جا سکے اور حکومتوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔ صحافی وہ لوگ ہیں جو دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں ہونے والے مظالم کو عوام تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ صحافی معاشرے کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں۔ ان کی رپورٹنگ عوام کو باخبر رکھتی ہے اور انہیں سچائی سے روشناس کراتی ہے۔دنیا بھر میںصحافیوں کو مختلف قسم کے جرائم اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں ہراسانی، جسمانی تشدد، دھمکیاں، گرفتاریاں، اور کبھی کبھار قتل تک شامل ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں صحافیوں کے خلاف جرائم کا خاتمہ نہ صرف آزادی صحافت کی بقا کے لیے اہم ہے بلکہ یہ عوامی مفاد کا بھی معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ دن اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہمیں صحافیوں کے حقوق اور آزادی کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔
پاکستان، آزاد کشمیر بلخصوس مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں پاکستان اور آزاد کشمیر میں صحافی بھی مختلف مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کو اکثر مختلف حکومتی اور غیر حکومتی عناصر کی جانب سے دباؤ، ہراسانی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں صحافت پر کئی طرح کی پابندیاں عائد ہیں، اور کچھ حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کے صحافی بھی ان چیلنجز سے محفوظ نہیں ہیں خاص کر لائن آف کنٹرول کے قریب کام کرنے والے صحافی خطرات میں گھِرے رہتے ہیں ۔پاکستان میں صحافیوں کوہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ انکے پروگرامز تک آف ایئر کر دئیے جاتے ہیں ۔مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق سینئر ٹی وی اینکر حامد میر، سینئر ٹی وی اینکر طلعت حسین ،تحقیقاتی صحافی مطیع اللہ جان،سنیئر صحافی عمر چیمہ ،سنیئر صحافی اسد طور جیسے بہت سے صحافی ہیں جنھیں پاکستان میں صحافیوں کو طاقتور عناصر، شدت پسند گروہوں اور بعض اوقات حکومتی اداروں کی جانب سے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران مسلسل خطرات کا سامنا رہتا ہے۔معروف صحافی اور اینکر ارشد شریف ،سلیم شہزاد ،ولی خان بابر،حیات اللہ خان،عبدالرزاق بلوچ،آفتاب عالم،ذیشان اشرف بٹ،نثار علی خان ودیگر کی شہادتیں پاکستان میں صحافیوں کی حفاظت اور صحافتی آزادی کے حوالے سے بڑے سوالات اٹھاتی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کے لیے کام کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ بھارتی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی طرف سے صحافیوں پر نظر رکھی جاتی ہے اور ان کی آزادی کو محدود کیا جاتا ہے۔ وادی میں انٹرنیٹ کی بندش، اطلاعات تک رسائی میں رکاوٹیں، اور آزادی رائے پر پابندیاں عام ہیں۔ بھارتی حکام اکثر صحافیوں کو گرفتار، ہراساں اور ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے، جس کے تحت انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔کشمیری صحافی عموماً اپنی رپورٹنگ میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور فوجی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ نتیجتاً، انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی رپورٹس کو دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کئی صحافیوں کو بنا وجہ حراست میں لیا جاتا ہے، اور بعض اوقات تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اس دباؤ کے باوجود کشمیری صحافی آزادیٔ اظہار کے اپنے حق کے لیے کام کرتے ہیں اور دنیا کو وہاں کے حالات سے باخبر رکھتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں آزادیٔ اظہار اور حقیقت کی عکاسی کے لیے بہت سے صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق معروف کشمیری صحافی اور روزنامہ رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری، نوجوان صحافی عارف احمد میر، فری لانس فوٹوگرافر اشفاق احمد،ایاز احمد ،تاریق احمد بھٹ ،نور محمد ڈار ودیگر کی موت صحافیوں کو درپیش خطرات کو ظاہر کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سیاسی اور سماجی مسائل حساس ہیں اور رپورٹنگ پر دباؤ زیادہ ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کئی خواتین صحافیوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نامور ٹی وی اینکر اور صحافی عاصمہ شیرازی ،ٹی وی اینکر اور صحافی مہر بخاری ، نامور ٹی وی اینکر اور صحافی غریدہ فاروقی، ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار ثنا بچہ، معروف اینکر عائشہ بخش، نامور ٹی وی اینکر اور صحافی تنزیلہ مظہر،سماجی کارکن اور صحافی ماروی سرمد اور بہت سی خواتین صحافی ہیں جنھیںاپنے خیالات اور صحافتی خدمات کے باعث ہراسانی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑاہے۔
پاکستان میں خواتین صحافیوں کو ہراسانی کے حوالے سے خواتین صحافیوں کے خیالات بھی جاننے کی کوشش کی۔سابق انچارج پریس کلب شکیلہ جلیل کے مطابق خواتین صحافیوں کو خاص طور پر اضافی نوعیت کے خطرات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواتین صحافیوں کو عموماً کام کے دوران اور آن لائن پلیٹ فارمز پر ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہراسانی جسمانی، ذہنی اور آن لائن طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ بہت سی خواتین صحافیوں کو کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا بھی ہوتا ہے، اور انہیں اکثر دفتری یا میدان میں کام کرنے کے دوران دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوتے ہیں۔
سابق کنٹرولر نیو ز شازیہ طاہر کے مطابق خواتین صحافیوں کو آن لائن بدنام کرنے اور نفرت انگیز مہمات کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔ انہیں اکثر سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور نفرت انگیز پیغامات موصول ہوتے ہیں، جس کا مقصد انہیں ڈرا دھمکا کر چپ کرانا ہوتا ہے۔ آن لائن ہراسانی سے ان کے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ خواتین صحافیوں کو پیش آنے والی مشکلات پر آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو ان کے تحفظ اور حقوق کی اہمیت سمجھ میں آئے۔
سینئر صحافی افشاں قریشی نے ایک اور اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی افشاں قریشی کا کہنا تھا کہ بعض ممالک میں خواتین صحافیوں کو رپورٹنگ کے دوران جنسی حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ احتجاجات، جلسے یا کسی ہنگامی موقع پر رپورٹنگ کرتے ہوئے خواتین صحافیوں کو جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ان پر جنسی بنیاد پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
میگزین ایڈیٹر نرگس جنجوعہ نے کہا ہے کہ کچھ ثقافتوں میں خواتین صحافیوں کو خاندانی اور سماجی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان کے کام کو اکثر معیوب سمجھا جاتا ہے اور بعض اوقات ان کے خاندان والے یا رشتہ دار انہیں اس پیشے کو چھوڑنے کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو بعض اوقات اپنی رپورٹنگ میں آزادی سے رائے دینے کی اجازت نہیں ہوتی اور ان کے کام کو سنسر کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں ان کے اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی ہے، اور انہیں ان موضوعات پر کام کرنے کی آزادی نہیں ملتی جو حساس یا متنازع سمجھے جاتے ہیں۔
سینئر صحافی نبیلہ حفیظ کا کہنا تھا کہ نفسیاتی دباؤ اور ذہنی صحت پر اثراتہر قسم کی ہراسانی، دھمکیاں اور تشدد خواتین صحافیوں کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ان حالات میں مسلسل کام کرتے رہنا ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے، اور انہیں طویل المدت ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے صحافیوں کو اکثر پیشہ ورانہ ترقی اور مواقعوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں زیادہ خطرناک کام یا مقام پر بھیجنے سے کترایا جاتا ہے، اور بعض اوقات ان کی ترقی اور کام کے مواقعوں میں جانبداری برتی جاتی ہے۔
کالم نگارشمع صدیقی کے مطابق خواتین صحافیوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کا احترام صحافت کے شعبے کی ترقی اور معاشرے کی بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ خواتین صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے پاکستان میں ہراسانی، تشدد اور دھمکیوں کے خلاف مضبوط قوانین بنائے جائیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے دفاتر میں ہراسانی سے متعلق پالیسیاں لاگو کی جائیں اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے آن لائن بدنامی اور نفرت انگیز مہمات کے خلاف سائبر قوانین کا نفاذ کیا جائے اور ایسے مقدمات کو فوری طور پر حل کیا جائے صحافیوں کو نفسیاتی معاونت اور تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ مشکل حالات میں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام اور ان کے تحفظ کے لیے مختلف ممالک اور بین الاقوامی سطح پر کئی قوانین اور معاہدے موجود ہیں۔ ان قوانین کا مقصد صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا، آزادی صحافت کو فروغ دینا، اور ایسے جرائم کی روک تھام کرنا ہے جو صحافیوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مختلف ویب سائٹس کے ڈیٹا کے مطابق کچھ اہم قوانین اور معاہدات ہیں جو دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے ہیں
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (Universal Declaration of Human Rights)
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (آرٹیکل 19) ہر انسان کو آزادانہ رائے اور اظہار کی آزادی دیتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار اور معلومات کی فراہمی کا حق حاصل ہے۔ یہ صحافیوں کے حقوق اور ان کی آزادی کے تحفظ کے لیے ایک بنیادی دستاویز ہے۔2
بین الاقوامی عہد نامہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR)
بین الاقوامی عہد نامہ برائے شہری اور سیاسی حقوق (International Covenant on Civil and Political Rights – ICCPR) بھی آرٹیکل 19 کے تحت آزادانہ اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس معاہدے کو بہت سے ممالک نے تسلیم کیا ہے اور یہ صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے ایک اہم حوالہ ہے۔
اقوام متحدہ کا منصوبہ برائے صحافیوں کے تحفظ (UN Plan of Action on the Safety of Journalists)اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو نے 2012 میں صحافیوں کی حفاظت اور جرائم کے خاتمے کے لیے یونائیٹڈ نیشنز پلان آف ایکشن آن دی سیفٹی آف جرنلسٹس اینڈ دی ایشو آف امپیونٹی” کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کرایا۔ اس منصوبے کا مقصد صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ان پر ہونے والے جرائم کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔
(European Convention on Human Rights)یورپ میں یورپی انسانی حقوق کا کنونشن (آرٹیکل 10) صحافیوں کو آزادی اظہار کا حق فراہم کرتا ہے۔ یہ کنونشن یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک کے لیے لازم ہے اور اس کے تحت صحافیوں کے حقوق اور آزادی کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
امریکہ کے خطے میں انٹر امریکن کنونشن آن ہیومن رائٹس (Inter-American Convention on Human Rights) بھی آزادی اظہار اور صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کنونشن کا مقصد صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے اقدامات کو فروغ دینا اور صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے کہ
جرنلسٹس پروٹیکشن بل 2021: پاکستان میں “جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز پروٹیکشن بل” 2021 میں منظور کیا گیا، جس کا مقصد صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس بل کے تحت صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پریس اور اشاعت آرڈیننس 2002: یہ قانون پریس اور اشاعت کی آزادی کو یقینی بناتا ہے اور اس کے تحت صحافیوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
الیکٹرانک کرائمز کا قانون (PECA 2016): آن لائن ہراسانی اور بدنامی کے خلاف سائبر کرائم بل (پیکا) کے تحت سائبر قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے تاکہ صحافیوں کو ڈیجیٹل دنیا میں ہراسانی سے بچایا جا سکے۔
صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ناگزیر ہیں عوامی سطح پر صحافیوں کے حقوق اور ان کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ صحافت کے فرائض کو سمجھیں اور اس کی قدر کریں صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین کا نفاذ ضروری ہے جو ان کے خلاف جرائم کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔ قانونی نظام کو مضبوط بنایا جائے تاکہ صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کو کڑی سزا دی جا سکے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور مجرموں کو سزا دلانے میں کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے۔ بیشتر ممالک میں صحافیوں کے قتل اور تشدد کے واقعات کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے مجرموں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔ حکومتوں کو صحافیوں کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت دینی چاہیے۔ صحافیوں کو آزادانہ ماحول فراہم کرنا چاہیے جہاں وہ بغیر کسی دباؤ اور خوف کے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ خطرناک مقامات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو خصوصی تربیت فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی جان کی حفاظت یقینی بنا سکیں اور مشکل حالات میں بھی صحافتی ذمہ داریاں پوری کر سکیںہعالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسے معاہدے ہونے چاہئیں جو صحافیوں کے تحفظ کے لیے ریاستوں کو پابند کریں۔ ڈیجیٹل دور میں صحافیوں کو آن لائن ہراسانی کا سامنا بھی رہتا ہے، اس لیے سائبر قوانین کو مضبوط بنایا جائے تاکہ آن لائن ہراسانی کو روکا جا سکے۔اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کا کرداراقوام متحدہ، یونیسکو اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف پروگرامات اور مہمات کا انعقاد کرتی ہیں۔ یونیسکو کے ذریعے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر رہنمائی اور مختلف ممالک کو امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف رپورٹس اور ڈیٹا کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک میں صحافیوں کی حالت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔صحافیوں کے تحفظ کے لیے ان تمام اقدامات کو عالمی سطح پر لاگو کرنا ضروری ہے تاکہ صحافت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد اپنی جان کی فکر کیے بغیر عوام کو
حقائق سے آگاہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔