سوشل میڈیا پر فراڈ کے بڑھتے ہوئے واقعات سنگین خطرہ 

سوشل میڈیا پر فراڈ کے بڑھتے ہوئے واقعات سنگین خطرہ

تحریر:شمیم اشرف

عصر حاضر میں سوشل میڈیا اور میسیجنگ ایپس جیسے واٹس ایپ،فیس بک، انسٹا گرام ،ایکس ،ٹک ٹاک ودیگر ہمارے روزمرہ کے زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن جہاں ان پلیٹ فارمز نے دنیا کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں ان کا غلط استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں واٹس ایپ اور فیس بک پر فراڈ کا ایک نیا طریقہ سامنے آیا ہے جس میں دھوکے باز افراد مشہور شخصیات یا قریبی دوستوں کے نام اور تصاویر استعمال کر کے لوگوں سے پیسے بٹورنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج صبح کشمیر ایکسپریس کے دفتر میں ایک اجلاس کے دوران چیف ایڈیٹر زاہد تبسم صاحب کو واٹس ایپ پر ایک مشکوک پیغام موصول ہواجس میں راجہ عبدالجبار یو اے ای کے سابق صدر کے نام اور تصویر کا استعمال کیا گیا تھاحیرت انگیز طور پریہ پیغام میرے موبائل پر بھی موصول ہوا۔ ابتدائی طور پر میں نے مذاق سمجھ کر گفتگو شروع کی لیکن زاہد تبسم صاحب نے فوراً اصل راجہ عبدالجبار سے رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح فراڈیے مشہور شخصیات کے نام اور تصاویر استعمال کر کے دھوکہ دہی کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دھوکے باز کس حد تک جا سکتے ہیں اور عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک پیغام کی تصدیق ضرور کریں اور محتاط رہیں۔

دھوکہ دہی کے اس نئے طریقہ کار میں فراڈیے مشہور شخصیات یا کسی معتبر شخصیت کی پروفائل کی نقل تیار کرتے ہیں اور لوگوں کو پیغامات بھیج کر پیسوں کی درخواست کرتے ہیں زیادہ تر صورتوں میں یہ فراڈیے کسی ایمرجنسی کی جھوٹی کہانی پیش کرتے ہیں جیسے کہ طبی امداد، قرض کی ادائیگی یا کسی مشکل میں مدد کے لیے فوری رقم کی ضرورت ہےلیکن اب دھوکہ دہی کا ایک اور نیا طریقہ بھی سامنے آیا ہے جس سے متعدد افراد متاثر ہوئےہیں-

نیا فراڈ انتہائی شاطرانہ ہےجس میں دھوکے باز افراد کہتے ہیں کہ وہ بیرون ملک سے پاکستان آ رہے ہیں اور ان کے پاس بڑی رقم موجود ہے جو وہ عارضی طور پر آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنا چاہتے ہیں وہ تھوڑی سی رقم بھیج کر آپکو مطمئن کرتے ہیں اس کے بعد زیادہ رقم کا جعلی اسکرین شاٹ دکھاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آپ کو رقم بھیج چکے ہیں بعد میں آپ کو بلیک میل کیا جاتا ہےکہ اگر آپ انہیں مطلوبہ رقم واپس نہیں دیں گے تو وہ آپ پر قانونی کارروائی کریں گےآپ لاعلمی میں اپنی اکائونٹس معلومات شئیر کرتے ہیں جس کے بعدبینک معلومات فراہم کرنے سے اکاؤنٹ مزید فراڈ یا غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہےاور دوسری جانب متاثرین اپنی زندگی بھر کی محنت کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں خاص طور پر جب وہ فراڈیوں کے دباؤ میں آ کر رقم منتقل کر دیتے ہیں دھوکہ دہی کے ایسے واقعات متاثرہ افراد کو ذہنی پریشانی اور شرمندگی کا شکار بناتے ہیں کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ انہوں نے لاعلمی میں فراڈیوں پر بھروسہ کیا ایسے معاملات میں متاثرین کو قانونی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہےخاص طور پر اگر ان کے اکاؤنٹ سے مشکوک ٹرانزیکشنز کی جائیں۔

نامعلوم پیغامات کو نظرانداز کرنا ہی ایسے فراڈ سے بچنے کا پہلا ہتھیار ہے کسی بھی اجنبی پیغام پر بھروسہ نہ کریں خاص طور پر اگر اس میں مالی مدد کی درخواست ہو۔جعلی اسکرین شاٹس پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے بینک اکاؤنٹس یا متعلقہ ایپ میں رقم کی خود تصدیق کریں۔کبھی بھی اپنی بینکنگ معلومات، شناختی کارڈز کی تفصیلات یا ذاتی معلومات کسی غیر متعلقہ فرد کے ساتھ شیئر نہ کریں۔

اجنبی افراد کو پروفائل تصویر اور دیگر معلومات دیکھنے سے روکنے کے لیے سوشل میڈیا اپر اپنی پرائیویسی سیٹنگز کو اپ ڈیٹ کریں۔ایسے پیغامات کو واٹس ایپ پر بلاک کریں اور سائبر کرائم اداروں کو رپورٹ کریں۔حکومت نے سائبر کرائم کے خلاف قوانین متعارف کرائے ہیں جیسے کہ PECAجو ایسے مجرموں کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے دیگر متعلقہ اداروں نے سائبر کرائمز کے حوالے سے ہیلپ لائن بھی قائم کی ہوئی ہے جہاں متاثرین شکایات درج کروا سکتے ہیں حکومت اور سائبر کرائم ادارے واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز کے ساتھ مل کر ان جعلی اکاؤنٹس اور مشکوک سرگرمیوں کو مانیٹر اور ختم کرنے کےلیے کوشاں ہیں سوشل میڈیا پر فراڈ کے بڑھتے ہوئے واقعات عوام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں ضروری ہے کہ لوگ ان دھوکہ دہی کے طریقوں کے بارے میں باخبر رہیں اور محتاط رویہ اپنائیں –

حکومت کو چاہیے کہ وہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کرے اور عوامی آگاہی بڑھائےاگر ہم ان احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور مشکوک سرگرمیوں کی فوری رپورٹنگ کریں تو ان فراڈیوں کے خلاف کارروائی موثر ثابت ہو سکتی ہے ایک ذمہ دار صارف کے طور پر ہمیں اپنی آن لائن سرگرمیوں میں ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.