ملکی موجودہ بحران 2018ء کے الیکشن کےسبب ہے،ایم کیو ایم پاکستان
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان کا موجودہ بحران 2024 ءکے الیکشن نہیں بلکہ 2018ء کے الیکشن کے سبب ہے، خودمختار مقامی اور شہری حکومت کا نظام لانا ہو گانامساعد حالات کے باوجود ایک ہی شہر نے تمام ذمہ داری اپنے کندھے پر اٹھا رکھی ہے ،
نہروں کے معاملے پر سندھ کا حق نہ مارا جائے،پاکستان میں معیشت مہنگائی اور بجلی کے بلو ںمیں بہتری کے امکانات نظر آرہے ہیں تاہم کچھ شعبوں کے ساتھ ساتھ کچھ شہر پاکستان کی معیشت کے لیئے پاکستان کی طاقت ہیںجن میںکراچی سر فہرست ہے جو کہ آج بھی نظر انداز اور مشکلات کے باوجود 60 فیصدریونیو دے رہا ہے،
سندھ کے بجٹ میں 90 فیصد سے زائد کراچی کا حصہ ہے جو ٹیکس دے رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک چل رہا ہے ایک طرف وہ طبقہ ہےسندھ کے وسائل پر اسی طبقے کا کوئی حق نہیں جو معیشت چلا رہا ہے، کراچی اسوقت بارود جے ڈھیر پر آباد شہر ہے،کراچی کی سڑکوں پر جو چنگھاریاں ابھرتی ہیں وہ اس بارود کے ڈھیر تک پہنچیں تو ایک بار پھر خون بہنے کا ڈر ہے، گزشتہ چودہ سال سے سندھ کے شہری علاقوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اسے علاقائی یا ایم کیو ایم کا مسئلہ نہ سمجھا جائے ہماری سیاسی اسپیس کو ہمیشہ کم کیا جاتا رہا ہے،
ان خیالات کا اظہار ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفےٰ کمال اور امین الحق نے ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا،
خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں دو طبقے ہیں ایک نوے فیصد دیتے ہیں دوسرے سو فیصد استعمال کرتے ہیں 97 فیصد دینے والوں کو بجٹ کا ایک فیصد بھی نہیں دیا جاتا، کراچی شہر کے امن کے لیئے کئی سالوں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ہم وفاق سے نظر انداز ہونے سے لیکے تمام مشکلات کو برداشت کیا 1985 میں بشرہ زیدی طالبہ کے کچل جانے کے بعد کراچی کا منظر نامہ بدل گیا
اس وقت نان کسٹم ٹرالر چل رہے ہیں جنکے مالکان غیر مقامی ہیں کئی ٹرالر رجسٹر ہی نہیں ہیں ،چور اور سپاہی دونوں غیر مقامی ہیں، سندھ کے شہری علاقوں کی معاشی تعلیمی نسل کشی کی جارہی ہے یہ ایم کیو ایم کا مسئلہ نہیں ہم سب کا مسئلہ ہے ، مردم شماری میں آدھے سے بھی کم افراددکھا کر آدھے لوگوں کے نام بھی غائب کر دیئےجاتے ہیں، کے فور پانی کا منصوبہ ابھی تک مکمل نہ ہوسکا ہے،
ان پچاس سالوں میں کراچی میں کچھ بھی نہیں بنایا گیا ہے، گزشتہ دنوں کراچی بلڈنگ اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ اتھارٹی بنایا گیا، گزشتہ دنوں پورے شہر کو لوٹنے اور قابض ہونے کے لیئے ایک قانون کا بل پاس کیا گیا آج سندھ کے شہری علاقوں کا نوے فیصد مینڈیٹ ہمارے پاس ہے، ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کی ایک وجہ کوٹہ سسٹم بھی تھا،واحد سندھ کا مقدر ہے کہ وہاں لسانی بنیادوں پر کوٹہ سسٹم چل رہا ہے،کراچی میں جو کچھ بھی بنایا گیا
ہمارے مئیرز کے ادوار میں بنایا گیا ،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے شہر کو دیہات میں تبدیل کر دیاایس بی سی اے نے کراچی کو بے ہنگم شہر بنا دیا ہے، سندھ کے شہری علاقوں کے مقدمے عدالتوں میں سڑ رہے ہیںہمارے لیے سڑکوں پر آنا آخری آپشن ہےآپ ہمیں آخری آپشن کی طرف دھکیل رہے ہیں، ہم شہر اقتدار میں یہ منتبہ کرنے آئے ہیں کہ ہم بھی حکومت کا حصہ ہیں
صوبائی حکومت کی جانب سے نیک نہ نیتی کی کوئی امید نہیں،وفاق ہمیں بتائے کہ ہمارے مسائل حل کرنے کوئی ارادہ ہے یا نہیں،جاگیر دارانہ جمہوریت، موروثی سیاست کی کس کو ضرورت ہے؟ہم نے ایک نسخہ کیمیاء پاکستان کے حکمرانوں اور ایوانوں کو پیش کیا تھا مجوزہ آئینی ترمیم صرف ایم کیو ایم کی تجویز نہیں اب سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے ہماری مجوزہ آئینی ترمیم مقدس ترین دستاویز ہے اس مسودہ پر اگر کوئی اعتراض ہے تو بتائیںہم چیلنج کرتے ہیں اس میں مسودے کی مخالفت کر کے دکھائیں،
فاروق ستار نے کہا کہ کراچی میں آج بد امنی اس لیے نہیں ہے کیونکہ ہم نے روک رکھی ہے،ایم کیو ایم سے بھی غلطیاں ہوئیں لیکن ہمارے حصے میں وہی غلطیاں ڈالیں جو ہم سے ہوئیںخودمختار مقامی اور شہری حکومت کا نظام لانا ہو گانامساعد حالات کے باوجود ایک ہی شہر نے تمام ذمہ داری اپنے کندھے پر اٹھا رکھی ہے کراچی میں اب مقامی حکومت پر بھی سندھ حکومت کا قبضہ ہے
کراچی آج چوتھا بدترین ناقابل رہائش شہر ہے ن لیگ نے مجوزہ آئینی ترمیم پر ہمارے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے،مصطفی کمال نے کہا کہ وفاق سے 7600 ارب روپے اس سال صوبوں کو دئیے گئے جو چار وزرائے اعلیٰ کے پاس ہیں، نہروں کا مسئلہ چاروں صوبوں کا ہے، ایم کیو ایم ایک وجہ کے تحت حکومت میں آتی ہے اگر وجہ پوری نہ ہو تو حکومت میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں،
یہ معاملہ بہت سنگین اور سنجیدہ ہے کیا بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی نے اس پر ہماری رائے جاننے کی کوشش کی صرف سیاست نہ کریں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں، پاکستان کا موجودہ بحران 24 کے الیکشن نہیں بلکہ 2018ء کے الیکشن کے سبب ہے ہم زبان کی بنیاد پر کسی کو غیر مقامی نہیں کہتےجس نے وہاں سے میٹرک کیا،
انٹر کیا وہ کراچی کا مقامی ہے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولے ہم نے نہروں کے معاملے پر واضح کہاکہ سندھ کا حق نہ مارا جائے مگر کیا سندھ حکومت نے اپنا آئینی کردار ادا کیا ہے؟۔