پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟
تحریر:-، سید مُلازم حسین بخاری
قرآن مجید میں ارشاد ھے جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا ۔یعنی انسان چاہے ہندو ہو یا سکھ یا عیسائی یا یہودی ہو ۔ لیکن نہیں معلوم یہ پاکستان میں کونسے مسلمان رہتے ہیں جو پارہ چنار میں انسانیت کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ہالانکہ دنیا اسلام غزہ کو رو رہی ہے کہ اسرائیل وحشیانہ طریقے سے مسلمانوں کی نسل کُشی کر رہا ہے اور خود مسلمان ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی تو کیا یہ انہیں نظر نہیں آ رہی۔

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟

اس ملک میں حکومت اور مذہبی رہنما بھی خاموش اور میڈیا بھی چپ ہے۔ آخر وہ کونسے لوگ ہیں جنہیں مارنا جائز تصور کیا جاتا ہے؟ کیا دو قومی نظریہ پر بننے والا ملک اپنے نظریات کھو چکا ہے؟ یہ قتل و غارت کیوں جاری ہے؟ اور وہ بھی ایک ہی فقہ کے لوگوں کی جس میں نو ماہ کی بچی سے لیکر نوے سال کے بوڑھے شریک ہیں کیا یہ انسان نہیں ہیں کیا یہ آدم کی اولاد نہیں ہیں؟ اس مذہب کے ماننے والے جنہیں حکم دیا جاتا ہے کہ دوسرے کی جان و مال آپ پر حرام ہے تو کیوں وہ انسانیت کو مولی اور گاجر کی طرح کاٹ رہے ہیں؟ اگر اب بھی کے پی کے کی حکومت ہوش کے ناخن نہیں لیتی تو وزیر اعلیٰ کو اپنے نام پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟
عمران خان کے لیے نکلنے والے قافلے اپنے صوبے کی عوام کو تحفظ نہیں دے سکے تو کس منہ سے وہ ایک انسان کے لیے دوبارہ خون بہانا چاہتے ہیں؟ وہ وزیر داخلہ جو اپنے آپ کو آل رسول شمار کرتے ہیں کہاں ہیں؟ ان کی ذمہ داری کیا صرف ایک پارٹی کے احتجاج کو رکوانے کے لیے ہے؟ کیا ایک مسافر بس پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے درجنوں افراد کی شہادت انہیں نہیں جگا سکی اور یہ واقعہ یک دم ظہور پذیر نہیں ہوا پچھلے دو سال سے اس کے حالات سامنے نظر آ رہے تھے ایک سڑک جو پشاور سے پارہ چنار جاتی ہے یہ تقریبا 251 کلو میٹر لمبی اور چھ گھنٹوں کے سفر پر مشتعمل ہے کیااس کی حفاظت نہیں ہو پا رہی تو پورے ملک کی حفاظت کیسے ہو گی؟ اور اس دفعہ 21.11.2024 تو مزے کی بات یہ تھی کہ سو گاڑیوں کے قافلے کے آگے اور پیچھے سیکیورٹی کا عملہ تھا اور قافلے کی شکل میں گاڑیاں جا رہی تھیں۔ ان پر پہلے مقام پر فائرنگ ہوتی ہے مگر گاڑیاں چلتی رہتی ہیں اور سیکیورٹی والے خاموش گاڑیوں کا قافلہ بکھر جاتا ہے آگے نیم شہری علاقے میں پھر فائرنگ ہوتی ہے اور تیسرے مقام پر پھر فائرنگ ہوتی ہے جس میں بچے بوڑھے اور خواتین لقمہ اجل بنتی ہیں، وہاں کے باریش انسان ہاتھوں میں ڈنڈے لیے اور چھریاں لیے ہوئے مرے ہوئے انسان کو دوبارہ مارتے نظر آتے ہیں پوری دنیا اس منظر کو دیکھ رہی ہے لکین نہ سیکیورٹی والے بچا سکے اور نہ ملیشیا بچا سکی؟ جو ساتھ تو چل رہے تھے لیکن نہ وہ دہشت گردوں کو روک سکے اور نہ ان معصوموں کو بچا سکے وہ مذہب جو خواتین اور بچوں کا احترام کرتا ہے اس کے ماننے والوں نے ماضی کے سیاہ دور کو بھی تاریک کر دیا۔

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟
کیا دوبارہ محمد بن قاسم پیدا نہیں ہوتے؟ جو خواتین کی آواز پر لبیک کہہ سکیں ان سے تو بہتر راجہ داہر کی حکومت تھی جو کلمہ گو بھی نہیں تھے مگر آل رسول کو تحفظ دیا اور آج آل رسول کے ماننے والوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے-
ارباب اقتدار ہوش کے ناخن لیں، یاد رکھیں معصوم بچوں کا قتل ان کے اقتدار کے زوال کی نشانی ہے یہ معصوم اور ناحق خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ جن کا زمین پر کوئی ولی وارث نہ ہو ان کا مددگار خود خدا ہوتا ہے،
پاکستان کے علاقے پارہ چنار میں ایک قبیلے کے خلاف کافی عرصہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے جو کہ شیعہ ہے اور ان واقعات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی جو کہ واقعی دردناک اور المناک واقعات ہیں۔

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟

پارہ چنار میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی شرح پوری دنیا کو متاثر کر رہی ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف سخت محنت کرنا ہوگی۔ شہداء کی قیمت انمول ہے اور ہمیں سلامتی اور امن کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے ان کی یاد کا احترام کرنا چاہیے۔ حکومت ان کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے ورنہ امن و آمان کی صورت پورے ملک میں خراب ہو سکتی ہے۔ امن کی صورتحال کو بڑھانے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور اپنے ملک کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک پاکستان ہے تو ہم ہیں اگر یہ نہ رہا تو ہماری آزادی بھی نہیں رہے گی آزادی کی قیمت فلسطین اور غزہ والوں سے پوچھیں آزادی کی قیمت ایک قیدی سے پوچھیں جو جیل کی فضا میں آزادی کا سانس بھی نہیں لے سکتا۔

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟

آزادی کسی قوم کا وہ بیش بہا سرمایہ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تابناک مستقبل کا ضامن حیات ہوتا ہے غلام قومیں اور محکوم افراد پر مشتمل معاشرے نہ صرف اصل حیات و ممات سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ زمین پر ایک بوجھ بھی ہوتے ہیں۔ غلامی وہ مرض کہن ہے کہ جو دلوں کو یکسر مردہ کردیتا ہے شاید اسی لئے غلامی کو آزادی میں بدلنے کا زریں نسخہ بتاتے ہوئے علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایاتھا کہ
دل مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کردوبارہ!
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ!

 

پارہ چنار کیوں ہے لہو لہو اس کا حل کیا ہے؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.