معصوم بچی سے زیادتی کیس،راضی نامہ نہیں ہوسکتا

10سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے کیس میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا۔جسٹس اطہر من اللہ

ناقابل راضی نامہ کیس میں ہمارااختیار نہیں، یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔دوران سماعت ریمارکسل

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ 10سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے کیس میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا۔10سالہ بچی کی جانب سے کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتا۔

10سالہ بچی سے جنسی زیادتی ہوئی، اگر بریت کاکیس ہے تووکیل دلائل دیں۔ ناقابل راضی نامہ کیس میں ہمارااختیار نہیں، یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔ کمپرومائز کی درخواست واپس لے لیں، کمپرومائز کی درخواست پرہمارااختیار نہیں، ہمارے پاس درخواست سننے کااختیارنہیں۔

ایک چھوٹی بچی ہے کیا وہ سمجھوتہ کرسکتی ہے، کیا بچہ کمپرومائزکرسکتاہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کے روز لودھراں سے تعلق رکھنے والی 10سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے کیس میں 20سال قید اور10لاکھ روپے جرمانے کی سزاپانے والے ملزم خلیل صادق کی جانب سے دائردرخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزارکی جانب سے سردارعاشق حسین بلوچ بطوروکیل پیش ہوئے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ 10سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی اور سیمنز مثبت آئے، بچی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ درملزم بااثر لوگ ہیں ان سے میری جان کوخطرہ ہے۔

وکیل کاکہنا تھا کہ ہم بیان حلفی دینے کے لئے تیار ہیں کہ بچی سے کوئی زیادتی نہیں کی، ڈاکٹر اور بچی دونوں عدالت آکر بیان دینے کوتیار ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ایک چھوٹی بچی ہے کیا وہ سمجھوتہ کرسکتی ہے، کیا بچہ کمپرومائزکرسکتاہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جرم ہواہی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بریت پر جانا چاہتے ہیں تودلائل دیں، اپیل کے مرحلہ پر کمپرومائزہوا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد کیاکہنا تھا کہ کیا گارڈین کابیان ہوسکتا ہے نہ ماں اورنہ ہی باپ پیش ہوئے۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ بچی کے ماں باپ وفات پاچکے ہیں چچانے بیان دیا، کیااس میں ڈی این اے رپورٹ آئی

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ 10سالہ بچی سے جنسی زیادتی ہوئی، اگر بریت کاکیس ہے تووکیل دلائل دیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ میرٹ پردلائل دینے کے لئے دوہفتے کاوقت دے دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ناقابل راضی نامہ کیس میں ہمارااختیار نہیں، یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جرم کی کم ازکم سزا10سال قید اور زیادہ سے زیادہ 20سال ہے اور10لاکھ جرمان ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کمپرومائز کی درخواست واپس لے لیں، کمپرومائز کی درخواست پرہمارااختیار نہیں، ہمارے پاس درخواست سننے کااختیارنہیں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کمپرومائز کے حوالہ سے درخواست واپس لینا چاہتے ہیں یاہم سے خارج کروانا چاہتے ہیں۔

جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکی درخواست لاہورہائی کورٹ سے خارج ہوئی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ وہ اپنی درخواست واپس لے لیتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ اگروکیل دلائل دینا چاہتے ہیں تودلائل دیں ہم سننے کوتیار ہیں، ہمیں قائل کریں، بریت ہوتوٹھیک ہے،10سالہ بچی کی جانب سے کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھاکہ وکیل تیاری کرکے آئیں 10سالہ بچی رضامندی نہیں دے سکتی، کمپرومائز نہیں کرسکتی۔ عدالت نے وکیل کومیرٹ پر دلائل کی تیاری کے لئے مزید وقت دیتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیس جلد دوبارہ سماعت کے لیئے مقررہوجائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.