الٹرا پروسیسڈ مصنوعات پر ٹیکس کیوں نہیں؟ثناءاللہ گھمن

الٹرا پروسیسڈ مصنوعات پر ٹیکس کیوں نہیں؟ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات پر ٹیکس ٹرپل کامیابی ہوگی۔ ریونیو بھی ملے گا، بیماریوں میں کمی ہوگی اور بیماریوں پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ ثناء اللہ گھمن۔

اسلام آباد(کشمیر ایکسپریس نیوز) پاکستان میں غیر متعدی امراض (NCDs) کا پھیلاؤ وبا کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ذیابیطس، موٹاپے، دل، گردے کی بیماریوں اور بعض قسم کے کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں 60 فیصد اموات ان غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کی کھپت اس قومی صحت کی ہنگامی صورتحال میں اہم کردار ادا کرنے والے عنصر میں شامل ہے۔ پاکستان میں 41 فیصد سے زائد بالغ افراد یا تو موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔

مزید برآں، اس وقت 33 ملین سے زیادہ لوگ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، مزید 10 ملین اس بیماری کی نشوونما کے دہانے پر ہیں۔ فوری پالیسی مداخلتوں کے بغیر، 2045 تک ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد 62 ملین تک بڑھنے کا امکان ہے۔ ان کے استعمال میں کمی کو روکنے کے لیے دنیا بھر سے ثابت شدہ سب سے پہلا اور موئثر ہتھیا ر ان پر ٹیکسوں میں اضافہ ہے۔

حکومت نے حالیہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس سے عام پاکستانی جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں بری طرح متاثر ہوں گے۔ اس کی بجائے حکومت کو الٹرا پراسیسڈ فوڈز اور میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانا چاہیے تاکہ جو ریونیو حکومت پٹرول پر ٹیکس لگا کر حاصل کرنا چاہتی ہے وہ ادھر سے حاصل ہوگا بلکہ اس سے بیماریوں میں بھی کمی آئے گی جو ملک کے لیے ایک جیت کی صورت حال ہو گی۔

اس کا اظہار پریس کانفرنس میں کیا گیا جس کا اہتمام پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) اور اِن بیماریوں پر کام کرنے والی تنظیموں ہارٹ فائلز، پاکستان یوتھ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر چینج ایڈوکیٹس (PYCA)، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشیٹو (CPDI)، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشن، آل پاکستان کڈنی ویلفیئر ایسوسی ایشن،ڈایابیٹک ایسوسی ایشن ااف پاکستان ، پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیا ٹیٹک سوسائٹی نے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں کیا گیا۔

جنرل سیکرٹری پناہ، جناب ثناء اللہ گھمن نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صحت عامہ کو کاروباری مفاد پر ترجیح دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں روزانہ 2200 لوگ غیر متعدی امراض اور1100 سے زیادہ لوگ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مرتے ہیں اور ہر ایک منٹ بعد ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں اور یہ ہی حالات کینسراور گردے کی بیماریوں کے ہیں۔

پاکستان میں 41 فیصد سے زیادہ بالغ افراد یا تو موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔ جس کی بڑھی وجہ الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کا استعمال ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے این سی ڈیز کی شرح ایک خطرناک وبا کی شکل اختیار کر رہی ہے۔

حکومت دنیا سے سکتے ہوئے الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کی کھپت کو کم کرنے کے لیے ان پر ٹیکس لگا ئے جس پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جبکہ حکومت نے حال ہی میں پیٹرول پر ٹیکس بڑھایا ہے جس کے نتیجے میں روز مرہ کی اشیاء، ادویات اور دیگر ضررویاتِ زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر صباء امجد نے حکومت پر زور دیا کہ ”الٹرا پروسیسڈ فوڈز پر ٹیکس لگانا حکومت اور ملک کے لیے تین طرح کامیابی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف زیادہ مطلوبہ ریونیو ملے گا بلکہ بیماری کے بوجھ کو بھی کم کرے گا اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔

سکواڈرن لیڈر ریٹائرڈ غلام عباس نے کہا کہ الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس، غیر صحت بخش اضافی اشیاء، چینی، نمک اور مصنوعی اجزاء سے لدی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے موٹاپے، ذیابیطس اور دیگر دائمی بیماریوں میں بڑھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے نہ صرف حکومت کو محصول ملے گا بلکہ صحت عامہ کے نظام پر بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنے اور صحت مند غذا کی حوصلہ افزائی کرکے صحت مند غذا کے استعمال کو بھی فروغ ملے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ پیٹرول پر ٹیکس بڑھانے کے بجائے الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور بیوریج پراڈکٹس کو ہدف بنا کر اپنی ٹیکس لگانے کی ترجیحات کو تبدیل کرے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ کارپوریٹ مفادات کی بجائے صحت عامہ کو ترجیح دے اور غیر صحت مند UPPs پر فوری طور پر زیادہ ٹیکس لگائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.