حکومتی عدم دلچسپی نے ریاستی جامعات کو شدیدمالیاتی بحران میں دھکیل دیا

حکومتی عدم دلچسپی نے ریاستی جامعات کو شدیدمالیاتی بحران میں دھکیل دیا
مظفرآباد(خبرنگار) آزاد جموں و کشمیر حکومت کی سرکاری شعبے میں قائم جامعات کو درپیش سنگین مالیاتی بحران کے حل میں عدم دلچسپی نے ان جامعات کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان پروفیسر ڈاکٹر مختاراحمد، چانسلر جامعات ،صدرریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری و یونیورسٹیز حکام کے بارہا توجہ دلائو نوٹسزاورمتعدد،تحاریک کے باوجود حکومت حال ہی میں اعلان کردہ مالی سال 2024-25کے بجٹ میں ان جامعات کے لیے مطلوبہ فنڈز مختص کرنے میں ناکام رہی۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 24 جون 2024 کو وزیر اعظم آزادکشمیر کے نام اپنے مکتوب میں چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے ریاستی جامعات کو درپیش مالی بحران کی سنگینی پر زور دیا۔ انہوں نے ایچ ای سی کی جانب سے ریاستی جامعات کو دی جانے والی گرانٹ میں نمایاں کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ پاکستان بھر کی جامعات بالعموم اور ریاستی جامعات بالخصوص مہنگائی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باوجود پچھلے کئی سالوں سے منجمدبجٹ سے ہی اپنے امورانجام دے رہی ہیں۔ چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن نے مالیاتی بحران کو روکنے اورتعلیمی سرگرمیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے حکومت آزادکشمیر کی جانب سے سالانہ گرانٹ کی فوری ضرورت پر زور دیا۔پروفیسر ڈاکٹر مختاراحمد نے سماجی و اقتصادی ترقی میں ریاستی جامعات کے اہم کردار اور تقریباً 3,500 فیکلٹی اور غیر فیکلٹی عملے کے ساتھ ساتھ 30,000 طلباء کی مدد کے لیے ریاستی حکومت کے فوری تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔چیئرمین ہائیرایجوکیشن کی اپیل کے علاوہ چانسلر جامعات ،صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود نے بھی گزشتہ ماہ وزیر اعظم آزادکشمیر نے نام اپنے مکتوب میں انہی خدشات کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا کہ سرکاری جامعات کو عدم تعاون کی صورت میں عملے کی ممکنہ بے روزگاری اور اعلیٰ تعلیم کے پروگرامز میں داخل 30ہزار سے زائد طلباء متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔صدر بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کے خط میں بین الاقوامی معیارپر پورا اترنے کے لیے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگراموں کو بڑھانے کے لیے جامعات کی کاوشوں کا بھی بالخصوص ذکر کیا گیا جو کہ مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے اب خطرے میں ہیں۔

Comments are closed.