مقبول بٹ شہید: جدوجہدِ آزادی کا درخشندہ ستارہ
کنٹرول لائن کے دونوں ں اطراف سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں مقبول بٹ شہید کی 41برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی
اسلام آباد (کشمیر ایکسپریس نیوز)مقبول بٹ شہید کا نام تاریخِ کشمیر میں جرات و قربانی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے انقلابی تھے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ 11 فروری 1984 کو تہاڑ جیل، دہلی میں انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، مگر ان کا خواب آج بھی کشمیری عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔
ابتدائی زندگی اور جدوجہد
مقبول بٹ 18 فروری 1938 کو وادیِ کشمیر کے علاقے ترہگام، ضلع کپواڑہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری حاصل کی۔ نوجوانی سے ہی وہ کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم رہے اور 1965 میں انہوں نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کی بنیاد رکھی۔
ان کی جدوجہد کا مقصد ایک خودمختار اور آزاد کشمیر کا قیام تھا۔ بھارتی تسلط کے خلاف آواز بلند کرنے پر انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا، مگر وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف سینہ سپر رہے۔
شہادت اور ورثہ
مقبول بٹ کو 11 فروری 1984 کو بھارت کی حکومت نے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی۔ ان کی شہادت کے بعد کشمیر کی تحریکِ آزادی مزید شدت اختیار کر گئی۔ ان کا نظریہ آج بھی کشمیری نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے
“جو مر گئے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتے
مگر وہ زندہ ہیں جو دل میں بستے ہیں
“سر بکف چل پڑے ہیں جو راہِ وفا میںو
ہی تاریخ میں زندہ مثالیں بنے ہیں”
نتیجہ
مقبول بٹ شہید ایک نظریہ، ایک تحریک اور ایک تاریخ ہیں۔ ان کی قربانی نے کشمیری عوام کو جرات و استقامت کا درس دیا۔ آج بھی 11 فروری کو پوری دنیا میں کشمیری عوام ان کی برسی منا کر ان کے مشن کی تکمیل کا عہد کرتے ہیں۔
“وہ جو سولی پہ چڑھ گئے، وہی زندہ و جاوید ہیں