پناہ کامیٹھے مشروبات پر زیادہ ٹیکس لگانے کا مطالبہ

پناہ کا پاکستان کے بگڑتے ہوئے صحت کے بحران سے نمٹنے کے لیے میٹھے مشروبات پر زیادہ ٹیکس لگانے کا مطالبہ

اسلام آباد(کشمیر ایکسپریس نیوز)پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ غیر متعدی امراض (NCDs) کے بوجھ کو کم کرنے اور صحت عامہ کی حفاظت کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر آئندہ مالیاتی بل 2025-26 میں تما م میٹھے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کو کم از کم 40 فیصد تک بڑھا دے، جن میں جوس، کاربونیٹیڈ مشروبات، انرجی فلیور والے دودھ، ،انرجی فلیور والے مشروبات شامل ہیں اور 2026-27 میں اس ایف ای ڈی 50% تک لے جائیں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے جناب گھمن نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو صحت کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے، جس میں غیر متعدی امراض جیسے ذیابیطس، دل کی بیماریاں، موٹاپا، کینسر، جگر اور گردے کی دائمی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (IDF) ذیابیطس اٹلس 2025 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمارا ملک اب ذیابیطس کے پھیلاؤ میں عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے، 20-79 سال کی عمر کے 31.4% بالغ افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ صرف صحت کا بحران نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی ہنگامی صورتحال ہے۔ہر سال 230,000 سے زیادہ اموات ذیابیطس سے متعلقہ پیچیدگیوں سے ہوتی ہیں، اور 90 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی تشخیص نہیں ہوتی، پناہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کا وسائل سے محروم نظامِ صحت فی کس صرف 79 ڈالر خرچ کر رہا ہے جواس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔

گھمن نے کہا کہ ”روک تھام اب صرف ایک آپشن نہیں ہے بلکہ یہ آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔”انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ میٹھے مشروبات، بشمول جوس جو اکثر صحت بخش کے طور پر فروخت کیے جاتے ہیں، NCDs کے اضافے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ”ان مصنوعات میں چینی کی مقدار بہت زیادہہوتی ہیجو فی سرونگ کل توانائی کا 54% اور 99% کے درمیان اور یہ WHO کی تجویز کردہ حدود سے کہیں زیادہ ہے”۔

گھمن نے ورلڈ بینک کے 2022 کے مطالعے کا حوالہ دیا، جس میں بتایا گیا کہ میٹھے مشروبات پر 50% ایکسائز ٹیکس فی کس استعمال کو 5.2 لیٹر تک کم کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں 7 ملین ڈالر کی اقتصادی قیمت پیدا ہوتی ہے، ٹیکس کی آمدنی میں 51 ملین ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے اور بیماریوں میں بھی کمی آتی ہے۔مسٹر گھمن نے زور دیا کہ کسی بھی پروڈکٹ کو مجوزہ ٹیکس سے استثنیٰ نہیں دیا جانا چاہیے، بشمول ”پھلوں پر مبنی” یا ”صحت مند متبادل” کے طور پر فروخت ہونے والی اشیاء۔ انہوں نے صنعت کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنے اور ایسی مصنوعات کے لیے کسی بھی گمراہ کن پالیسی مراعات یا ٹیکسمیں کمی کو ختم کرنے پر زور دیا۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کے انتظام کی سالانہ براہ راست لاگت $2.6 بلین ہے، جس کے علاج کی اوسط لاگت $740 فی مریض سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ 2010 سے 2025 تک NCDs کی وجہ سے وسیع تر اقتصادی نقصانات کا تخمینہ 358 بلین ڈالر سے 862 بلین ڈالر کے درمیان رہاہے۔” میٹھے مشروبات پر ٹیکس لگانا ایک ثابت شدہ، کم لاگت والی پبلک ہیلتھ پالیسی ہے۔ یہ جانیں بچاتی ہے، بیماریاں کم کرتی ہے، اور ہماری معیشت کو مضبوط کرتی ہے۔ ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ صحت عامہ کو کارپوریٹ مفاد پر تریج دے اور وہ فیصلہ کن انداز میں کام کرتے ہوئے اس ٹیکس کو فنانس بل 2025-26 میں شامل کرے اور اسے 2026-27 کے فنانس بل میں مزید بڑھائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.