یوٹیلٹی سٹورز منافع بخش ادارہ
یوٹیلٹی سٹورز منافع بخش ادارہ
شاہد حسین
یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن سن 1971 میں ذولفقار علی بھٹو کے دور میں قائم کئے گئے اس وقت اس کے ٹوٹل 20سٹورز ملک بھر میں قائم کئے گئے اور آج اس نیٹ ورک کے ہر یونین کونسل لیول پر سٹورز ہیں جن کی تعداد ریگیولر اسٹور 4800ہیں اور فرنچائز سٹورز 1500 ہیں، اگر ملازمین کی بات کی جائے تو ان کی تعداد لگ بھگ 12000سے زیادہ ہے اس کے علاوہ انٹرنیشنل برینڈ اور لوکل برینڈ جو اس کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کے ملازمین کی تعداد کم از کم 34000ہزار سے زیادہ ہے جو صرف یوٹیلٹی سٹورز کو ڈیل کرتے ہیں۔
واضع رہے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن ملک کا واحد ادارہ ہے جو ملک کے ہر یونین کونسل لیول پر موجود ہے اور ہر قسم کی قدرتی آفات، ذلذلہ ہو، سیلاب ہو یا کرونا ہو اس دارے کے ذریعے متاثرین کی مدد کی جاتی ہے، 2005 کے ذلذلے میں اس ادارے نے ہر روز 300 سے زیاداہ امدادی سامان کے ٹرک روزانہ کی بنیاد پر پھچائے، اور سندہ کے سیلاب میں بھی یہ ادارہ سرے فہرست رہا ہے، کرونا کے دنوں میں جہان پورا ملک بند تھا وہاں اس دارے کے ملامین 24 گہنٹے کام کرتے رہے اور اس دواران کرونا وباء سے اس ادارے کے 30ملازمین نے وفات پائی۔
موجودہ حکومت پاکستان نے 15آگست کو ECCاکنامک کورڈینیش کمیٹی میں یوٹیلٹی سٹورز کے لئے 50ارب روپے کی سبسڈی منظور کی جو کہ BISP بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے2کروڑ 60 لاکھہ گھرانوں/ بینیفشریز کو اشیاء خوردنوش سستے داموں فراہم کرنا تھا، دوسرے ہی روز کیبنٹ کی میٹنگ میں وزیراعظم نے حکم دیا کہ یوٹیلٹی سٹورز کو دو ہفتوں میں بند کرنے اور متبادل نظام بنانے کے لئے پرپوزل دیا جائے، یہاں یہ زکر کرنا بھی لازمی ہے کہ حکومت پاکستان نے 12ارب روپے یوٹیلٹی سٹورز کے ادار کرنے ہیں، کیونکہ یوٹیلیٹی سٹورز حکومت کے حکم پر عوام کو ریلیف فراہم کرچکی ہے، اور اتنی ہی رقم یوٹیلٹی سٹورز نے مختلف کمپنیوں کو ادا کرنی ہے۔
واضع رہے(SOE) اسٹیٹ اون انٹرپرائزز جیسے ادارے کو ختم کرنے کے لئے جو قانونی تریقیکار دیا گیا ہے اس کو لاگو کئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا، اور اس پروسس کو پورا کرتے ہوئے کم از کم 2سال کا وقت درکار ہے، جبکہ وزیراعظم نے دو ہفتے کا وقت دیا جوکہ سمجھنے سے باہر ہے، ایک اطلاع کے مطابق یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے سٹوروں پر جو اسٹاک موجود ہے اس کے ملکیت کم از کم 12ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے اس کو ختم کرنے کے لئے بھی لازمی وقت درکار ہوگا۔
جہاں حکومت کی پالیسی ہے کہ نقصان میں جانے والے ادارے بند کرنے اور پرائیوٹ کرنے ہیں، یہ واضع رہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن سرکاری دستاویز کے مطابق قطعن نقصان میں نھیں ہے اور یہ ادارہ منافع بخش ہے اور یہ واحد سرکاری ادارہ ہے جو ہر سال حکومت پاکستان کو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے، پچھلے 10سالوں میں یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے 130 ارب روپے ٹیکس ادا کیا،
اس کے علاوہ اپنے آپریشنل اخراجات اور اپنے ملازمین کی تنخواہ اپنے لیول پر ادا کرتا ہے حکومت پاکستان سے کوئی فنڈ نھیں دیا جاتا،
حکومت پاکستان نے ابھی تک جو ادارے پرائیوٹ/بند کئے ہیں ان کے ملازمین کے تعداد 150 سے 300تک تھی اور ان کو کسی اور اداروں میں بیھجا گیا ہے،
لیکن اس ادارے کے ملازمین کا سٹیٹس بکل الگ ہے، اس ادارے کے ملازمین کو حکومت پاکستان تنخواہ اور پینشن فراہم نہیں کرتی،واضح رہے حکومت پاکستان کی طرف سے بڑھائی گئی سیلریز %25،%15،اور%35 ملازمین کو ادا نھیں کی کئی، اس ادارے میں 16سالوں سے کام کرنے والے ڈیلیوجز اور کانٹریٹ ملازمین کو آج تک ریگیلور نھیں کیا گیا۔ جبکہ ان کے حق میں مختلف عدالتوں نے فیصلے دے رکھے ہیں۔ کیا حکومت کے لئے آسان ہوگا کہ بجائے پینشنر کم کرنے کے وہ 12000 وہ ملازم ان اداروں میں ضم کرے جن سے ان کو پینشن اور ہر ماہ تنخواہ حکومت کے خزانے سے ادا کی جائے؟ جبکہ آئی ایم ایف کا پریشر ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے اور اس وجہ سے حکومت نے ایک لاکھ 60ہزر کے قریب وہ نوکریاں ختم کر دیں جن کی بھرتیاں ہونی تھیں۔
دوسری طرف حکومت اس پر کام کر رہی ہے کہ آئیندہ سالوں میں پینشن کا نظام ختم اور پینشنرز کم کئے جائیں گے۔، یہ بات سمجھہ سے بالاتر ہے کہ حکومت اس ادارے کو بند کرنے کے بعد اگر خدانخوستہ ملک میں کبھی سیلابی صورتحال ہو یہ 2005 جیسا واقع ہو، ایسے حالات میں متاثرین کی مدد کے لئے کون سا ایسا پلیٹفارم ہوگا جہاں سے امداد کرے گی۔؟
ایک دستاویز کے مطابق اگر حکومت پاکستان بینظیر انکم سپورٹ کے بینیفشریز کو کیش رقم فراہم کرتی ہے تو فی گھرانہ 500روپے بنتا ہے، جبکہ یوٹیلٹی سٹورز سے ان غریب گھرانوں کو بہت ریلیف مل جاتا ہے،اس ادارے کے ذریعے حکومت وقت ہر سال رمضان المبارک میں غریب عوام کو اشیاء خوردنوش پر ریلیف فراہم کرتی رہی ہیں وہ بھی ملک بھر کی عوام تک پہچانا ان سٹوروں کے ذریعے مکن ہوتا ہے کیونکہ یہ ہی واحد ادارہ ہے جو ملک بھر کے ہر یونین کونسل لیول پر موجود ہے، کیا اس حکومت کا آئندہ رمضان المبارک میںوہ ریلیف بھی پاکستان کی عوام کو فراہم نھیں کرنا۔
اگر حکومت پاکستان فقط بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے2کروڑ 60لاکھہ گھرانوں/ بینفشریز کو اس ادارے سے ریلیف فراہم کرتی رہے اور اس ادارے کو کوئی سبسڈی فراہم نہ بھی کرے پھر بھی یہ ادارہ بھترین کام کرتا رہے گا، اس طرح حکومت پاکستان کو 12000 سے زیادہ ملاززمین کو سنبھالنا جو کہ کسی نہ کسی دوسرے ادارے میں ضم کرنا پڑے گااور ہر مہینے حکومتی خزانے سے کروڑوں روپے کی سیلری ادا کرنی پڑے گی۔ اور 34000ہزار ان ملازمین کو بیروزگاری سے بچا سکتی ہے جن کا روزگار اس ادارے سے وابستہ ہے۔
Comments are closed.