وزیر اعظم محسن کش،کچھ ڈلیورنہیں کرسکا،طارق فاروق اسٹیبلشمنٹ کو آزادکشمیر میں بھی دھچکا ملنے والا ہے
ۭمظفرآباد( وقائع نگار )پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل چوہدری طارق فاروق نے کہا ہے کہ آزادکشمیر کے عوام پر مسلط وزیراعظم ریاستی وسائل اور قانون کے ناجائز استعمال کے ذریعے ڈر اور خوف پیدا کر کے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے ،
اخلاقیات سے عاری ہونے کے ساتھ ساتھ محسن کش بھی ہے ، ادارے بنانے والی حکومتوں ، سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو مافیا کہتا ہے ، اس کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ سیاسی عقیدے پر یقین رکھتا ہے ، اسی لیے کسی جماعت میں نہیں ٹکتا، آج بھی عمران خان جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے
اسٹیبلشمنٹ کو بہت جلد آزادکشمیر میں بھی دھچکا ملنے والا ہے ،عوامی ایکشن کمیٹی کے پیچھے بھی اسی کی چانکیائی سوچ کارفرما ہے ، اس کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی سی ہے، آزادکشمیر میں سیاسی جماعتوں کو غیر متعلق اور غیر موثر کرنے کے نتائج آئندہ 25 سال تک بھگتنے پڑیں گے
پاکستان کے قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو موجودہ وزیراعظم کو رات کی تاریکی میں لائے ، آزادکشمیر میں بلوچستان جیسے حالات پیدا کرنے کی بات کرنے والے وزیراعظم سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ آگ کس نے لگائی ، اس کے قول و فعل میں تضاد ہے
مجھ پر پلی بارگینگ کا الزام ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا، یہاں دورہ مظفرآباد کے موقع پر سینئر صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوران چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر میں مخلوط حکومت بننے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر کی قیادت کا تھا ، اس کا الزام مرکزی قیادت کو نہیں دیا جا سکتا
انہوں نے اس عمل میں شریک نہ ہونے کی تجویز دی تھی، پی ٹی آئی تقسیم اورختم ہونے کی بات پر حکومت میں شامل ہونے کی تجویز منظور ہوئی ، مرکزی قیادت نے اپنے نمائندگان بھیج کر مقامی رائے حاصل کی تھی اور پھر فیصلے کا اختیار بھی مقامی قیادت کو دے دیا تھا
قائد مسلم لیگ (ن) میاں محمد نواز شریف سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کے خلاف ہیں، مسلم لیگ (ن) کا دائرہ کار آزادکشمیر تک بڑھانے کا موقع بھی سردار عتیق احمد خان کی ضد اور وعدہ خلافی کی وجہ سے ملا
پہلی تحریک عدم اعتماد سے پہلے سابق وزیراعظم فاروق حیدر خان نے اس وقت بھی تجویز دی تھی عتیق احمد صدر جماعت یا وزیراعظم میں سے کسی ایک عہدہ کا انتخاب کریں مگر سردار عتیق احمد نے میرپور میں جماعت کا کنونشن بلا کر بحیثیت وزیراعظم جماعت کے صدر کے عہدہ پر اپنا انتخاب کروایا
ماحول اس کے بعد خراب ہوا، موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے مشاورت کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ سب کچھ مقامی قیادت اپنی مرضی سے کرے اور پھر یہ فیصلہ مقامی قیادت نے اپنی مرضی سے کیا ، قیادت کے ساتھ ویڈیو لنک کانفرنس میں وزارت عظمیٰ کیلئے مختلف نام زیر غور آئے تھے
البتہ مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر مرکز سے مشاورت سے پہلے ہی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر چکی تھی مگر مخلوط حکومت کا حصہ بننے کے مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں، یہ ہائبرڈ نظام میں تبدیل کر دی گئی جس میں سیاسی جماعتوں کو بالکل ختم کرنے کی کوشش کی گئی ، سیاسی قیادت کو غیر متعلق اور غیر موثر کر دیا گیا اب جب ہم حکومت سے نکلنے کی بات کرتے ہیں تو پارلیمانی پارٹی آڑے آتی ہے
جماعت کے مشاورتی فورم مجلس عاملہ اور تنظیمی سطح پر یہ اتفاق ہے کہ ہمیں حکومت کا حصہ نہیں رہنا چاہیے، تیرہویں ترمیم ختم کرنے کے حوالے سے صرف 2 لوگ رکاوٹ بنے تھے، میرے اور افتخار گیلانی کے علاوہ باقی سب لوگ تیار ہو گئے تھے
وزراء کی تعداد پر عائد پابندی کو ختم کرنے کیلئے کی گئی آئینی ترمیم کی مرکز نے مشروط اجازت دی تھی ، جس کے تحت وزراء کی تعدادممبران اسمبلی کی کل تعداد کے 40 فیصد کرنا تھی مگر ایسا نہیں ہوا، جماعتی قیادت بوجوہ ترمیمی عمل میں اپنا کردار ادا نہ کر سکی ، مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر بحیثیت جماعت حکومت کا حصہ نہیں ، تاہم پارلیمانی پارٹی ضرور حکومت میں شامل ہے
جب فیصلے خود کیے ہوں تو اس کی ذمہ داری مرکز پر عائد نہیں کی جا سکتی ، حکومت اور جماعت الگ الگ فورم ہیں، موجودہ سیٹ اپ کے اندر رہنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہے ، یہ نظام چلانے والے اور لوگ ہیں، اس نظام میں وزیراعظم کو کھلی چھٹی دی گئی ہے ،ایک صفحہ پر ہونے کے تاثر کا بھرپور استعمال کیا گیا
مالی اور انتظامی معاملات میں من مرضی کی گئی ، صورتحال یہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس تک منعقد کرنے کی زحمت نہیں کی گئی بلکہ انتہائی حساس قانون سازی اور فیصلے بھی بائی سرکولیشن کیے گئے ، قانون ساز اسمبلی کی کمیٹیاں تاحال نہیں بن سکیں، ہماری پارٹی کو بالآخر فیصلہ کرنا پڑے گا کیوںکہ آگے الیکشن قریب ہیں ، ہم نے اپنی پارٹی کو دیکھنا ہے ، یہ فیصلہ جلدی کرنا پڑے گا
تاخیر کی صورت میں ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ موجود ہے ، چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں گزشتہ الیکشن میں جو کچھ ہوا سب کو پتہ ہے ، ایک کٹھ پتلی حکومت لانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مہرے استعمال کیے ، سزا صرف فاروق حیدر کو بحیثیت صدر جماعت ملی ، موجودہ ناکامیوں کے حوالے سے صدر جماعت کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے
کارکنوں کا شدید دبائو ہے کہ جلد فیصلہ ہو ، بعض چیزیں ابھی طے ہونا ہیں، میاں محمد نواز شریف کے بیرون ملک دورے کے بعد ان سے ملاقات کریں گے، سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کے بجائے اب کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا جو خوش آئند ہے
صدر جماعت کو بھی کارکنوں کی آواز سننا پڑے گی ، مجلس عاملہ کے اجلاس میں فاروق حیدر نے رائے دی تھی کہ صدر جماعت اور سینئر نائب صدر کارکنوں کی رائے مرکز تک پہنچائیں ، یہ ذمہ داری انہوں نے پوری کی یا نہیں مجھے علم نہیں کیوں کہ میں مجلس عاملہ کے اجلاس میں موجود نہیں تھا
آزادکشمیر کے 33 میں سے 29 حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں ہے ، صرف 4 حلقے حکومت میں شامل ہیں ان میں سے بھی فاروق حیدر کے حلقے کو شدید نوعیت کی اپوزیشن میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، طارق فاروق نے کہا کہ تیرہویں ترمیم میں قائم مقام وزراعظم کا عہدہ ختم کر دیا تھا ، موجودہ سینئر وزیر کرنل وقار نور پارٹی کی نمائندگی نہیں کرتے تاہم اپنے حلقے کی نمائندگی ضرور کرتے ہیں
یہی صورتحال صدر جماعت کیلئے ہے جو اپنے حلقے سے باہر نہیںنکلتے ، حکومت میں شامل لیگی وزراء جماعتی کارکنوں کے خلاف ہونے والے انتقامی عمل میں برابر کے ذمہ دار ہیں، وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق کے حوالے سے پوچھے گئے
ایک سوال کے جواب میں چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ انوارالحق کوجن مقاصد کیلئے لایا گیا تھا وہ پورے نہیں ہو سکے ہیں یہ کچھ ڈلیور نہیں کر سکا،اس کے نزدیک اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ، جو شخص آزادکشمیرمیں ادارے بنانے والی سیاسی شخصیات اور سابق حکومتوں میں شامل جماعتوں کو مافیا قرار دیتا ہے اس کی ذہنی کیفیت چیک کروانے کی ضرورت ہے
اس کے والد نے 10 جماعتیں بدلیں ، خود یہ اب چوتھی جماعت میں ہے ، یہ بلیک میلنگ اور دھڑے بندی پر یقین رکھتا ہے ، ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کر کے ملازمین کو ناجائز کاموں کیلئے مجبور کیا جاتا ہے ، ریاست کا ہر ملازم ممبر اسمبلی ، سیاسی قیادت خوف کا شکار ہے ، انتظامیہ مفلوج ہے ،
طاقت کے بے دریغ استعمال سے خوف کی کیفیت توپیدا کیا جا سکتی ہے مگر ایسا کرنے والوں کو ہٹلر کا انجام یاد رکھنا چاہیے یہ فسطائی انداز حکومت ہے ، مخالفین کے راستے بند کرنے والوں کو اپنا مستقبل بھی مدنظر رکھنا چاہیے
وزیراعظم اقتدار کو طول دینے کیلئے اسٹیبلشمنٹ اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بعد اب مذہب کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے ، عمران خان کی طرح یہ بھی مخصوص عزائم کیلئے سرگرم ہے ، اقتدار سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے صرف انوارالحق کو نہیں
ماضی میں جتنے وزیراعظم رہے سب اپنا اختیار بحیثیت وزیراعظم جب تک عہدوں پر رہے استعمال کرتے رہے ، یہ کوئی نئی بات نہیں ، جذبات ابھار کر لوگوں کواشتعال تودلایا جا سکتا ہے جس کے ذریعے بلیک میلنگ آسان ہو جاتی ہے، انوارالحق اس طریقہ واردات کا ماہر ہے
ماضی میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بحیثیت چیئرمین گڈ گورننس کمیٹی اس نے چوہدری عبدالمجید کو ورغلا کر قومی اسمبلی کے سامنے آزادکشمیر حکومت سے احتجاجی مظاہرہ کروایا ، آج بھی عوامی ایکشن کمیٹی کی سرگرمیوں کے پیچھے اسی کی سوچ شامل ہے
پاکستان کے قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے ، ان سے بھی پوچھا جانا چاہیے اس نقصان کے اصل ذمہ دار رات کے اندھیرے میں اس وزیراعظم کو لانے اور من مانی کیلئے کھلی چھٹی دینے والے برابر کے ذمہ دار ہیں
وزیراعظم عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو اپنے چوری کیے ہوئے خیالات قرار دے چکے ہیں ، اب راولاکوٹ کے دورے کے دوران عالمی سازش کا نیا شوشہ چھوڑا گیا ، اس طرح فرار ممکن نہیں ، عوامی ایکشن کمیٹی بھی اسٹیبشلمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی انہیں بھی جواب دینا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرتے وقت کٹھ پتلی وزیراعظم کو کیوں ساتھ نہیں بٹھایا کچھ اور بھی کٹھ پتلیاں موجود ہیں جو وزیراعظم کے اشاروں پر چلتی ہیں
ایک اور سوال پر چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ برسراقتدار آتے وقت وزیراعظم کا دعویٰ تھا کہ اعلانات نہیں کروں گا، اب کس کے دبائو پر صبح شام اعلانات کا لامتناعی سلسلہ شروع کر دیا ہے ، راولاکوٹ کے لوگ سیاسی طور پر باشعور اور بیدار ہیں، وہ اس کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں
راولاکوٹ میں بیٹھ کر یہ کہنا کہ یہاں بلوچستان جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں یہ آگ کس نے لگائی پہلے اس کا جواب تو دو ، حکومت پاکستان کی جانب سے ملنے والے فنڈز میں سے ساڑھے 7کروڑ فی ممبر اسمبلی تقسیم کرنے سے کچھ سہولت کاروں کو فائدہ تو ہو سکتا ہے ریاست کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں
آج بھی سگریٹ مافیا ، آٹا مافیا بدستور فعال ہیں، ان کی سرپرستی کیا اب موجودہ حکومت نہیں کر رہی عوام جواب چاہتے ہیں، ترقیاتی عمل ہمیشہ فنانشل کوڈ کے مطابق مکمل کیا جاتا ہے ، بلاک پرویژن کی نئی مد کا قیام حیران کن ، ناقابل فہم اور غیر قانونی ہے ،چیف سیکرٹری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات اس عمل میں شریک ہو کر غیر قانونی عمل کا حصہ بن رہے ہیں
ماضی میں کشمیر کونسل پر بھی یہی اعتراض تھا کہ کونسل سے بلاک پرویژن کے ذریعے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کی جاتی ہے ، آزادکشمیر اسمبلی کو بائی پاس کرتےہوئے اب بلاک پرویژن کے تحت فرد واحد ترقیاتی فنڈز بانٹ رہا ہے ، کسی بھی محکمہ کی اے ڈی پی موجود نہیں
اس وقت آزادکشمیر کے اندر بے چینی ، افراتفری اور غصہ ہے اس کی ذمہ داری آخر کس پر عائد ہو گی، پارلیمانی سیاسی نظام کو مفلوج ،سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو غیر متعلق کرنے کے نتائج 25 سال تک بھگتنے پڑیں گے
سسٹم کو کسی صورت غیرمتعلق نہیں کیا جا سکتا ،تمام ادارے ایک نظام کے تابع ہیں، میرٹ کے دعویدار وزیراعظم کا میرٹ قانون ساز اسمبلی میں تعینات اس کا بہنوئی سیکرٹری اسمبلی کی شکل میں موجود ہے جسے گریڈ 21 میں براہ راست بھرتی کیا ، وزیراعظم سیکرٹریٹ سے اسامیاں محکمہ سروسز میںمنتقل کر کے یہ دعویٰ کرنا کہ اخراجات کم ہو گئے دھوکہ دہی کی منفرد مثال ہے
ایڈہاک ملازمین کو چھ چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں ، ایک طرف اشرافیہ کی مراعات میں اضافہ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف عوامی ایکشن کمیٹی سے یہ مراعات ختم کروانے کا مطالبہ کروایا جاتا ہے جو کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے
وزیراعظم کے کئی چہرے اور کئی روپ ہیں، یہ بھمبر میں اور چہرے کے ساتھ جاتا ہے ، راولاکوٹ میں روپ بدل لیتا ہے ، اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اس کا چہرہ بالکل مختلف ہوتا ہے جب کہ مظفرآباد آ کر ایک اور رنگ چڑھا لیتا ہے ، کسی کے بغض اور عناد کی وجہ سے اسے ہر بار کسی نہ کسی جگہ سے سپورٹ ملتی رہی ہے
اس کی حکومت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے، جب یہ نہ رہی تو ایک ممبر اسمبلی بھی اس ساتھ نہیں ہو گا،یہ مسلسل کوشش کے باوجود پارٹی کیوں نہیں بنا سکا ، آزادکشمیر میں پاکستان گریز سوچ کو پھیلانے اور اسے مستحکم کرنے کے پس پردہ اس وزیراعظم کا کردار اور سوچ شامل ہیں
ایک اور سوال کے جواب میں چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ پبلک آفس میں بیٹھنے والا ہر شخص قابل احتساب ہے تاہم ضروری ہے کہ احتساب کرنے والے کا اپنا دامن صاف اور شخصیت غیر متنازعہ ہو ، آزادکشمیر کے ہر گھر میں پاکستان ، مسلح افواج پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی اور محبت موجود ہے
پاک فوج اور پاکستانی عوام کے علاوہ کشمیریوں کا کوئی والی وارث نہیں ، پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے مسئلہ کشمیر ، مقبوضہ کشمیرکی صورتحال خصوصاً پانچ اگست 2019 کے سانحہ پر ردعمل نہیں دیا، اس کی ذمہ دار اس وقت کی اسٹیبشلمنٹ ،قومی سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت بھی ہے
چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ وزیراعظم سیاسی کارکنوں اور سیاسی قیادت کو گالیاں دیتا ہے ، لوگوں کو کرپشن کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے ، خود کو درویش ثابت کرنے کیلئے باقی سب کو چور کہتا ہے ، خوش آئند بات یہ ہے کہ مالکوں نے اس کے بٹن بند کروا دیئے
یہ راجہ فاروق حیدر کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن کا اثر ہے یا کچھ اور جلد پتہ چل جائے گا، ایک آئینی عہدہ پر موجود رہتے ہوئے دوسرے عہدے پر انتخاب نہیں لڑا جا سکتا ، آئین و قانون میں واضح ہے تاہم معاملہ عدالت میں ہے زیادہ بات مناسب نہیں ، ساڑھے چار ماہ تک اسمبلی کا اجلاس بغیر بزنس کے جاری رہا، مجھ سے ایک اینکر نے اس وقت پوچھا تھا کہ اجلاس کی غیر ضروری طوالت کیوں ہے تو میں نے اس وقت کہا تھا کہ اس کے پیچھے مقاصد ہیں جو پورے ہو چکے ہیں، یہ حکومت اب قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے سے کیوں گریزاں ہے، اگر اپوزیشن مضبوط ہو تو حکومت ایک دن کا اجلاس بھی برداشت نہیں کر سکتی ،ایک اور سوال پر سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ وزیراعظم انوارالحق گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے ہیں ، 1990 میں ایڈہاک ڈی ایف سی کے طور پر کرپشن ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرف ہوئے ، اس دور میں ان کے والد سینئر وزیر برقیات تھے جو بجلی کے میٹر خود چیک کرتے تھے، 96 میں بحیثیت ایڈمنسٹریٹر ضلع کونسل انوارالحق نے خلاف میرٹ بھرتیاں کیں، بحیثیت سپیکر اسمبلی الیکشن ہارنے
کے بعد پرانی تاریخیں درج کر کے خلاف قواعد 28 لوگ بھرتی کیے ، ان کے والد کو کے ایچ خورشید مرحوم کے دور میں ٹرانسپورٹ اڈہ کیلئے زمین اور گاڑیوں کے پرمٹ ملے ، مقامی نادار کی حیثیت سے زمین حاصل کی، جنگلات کے ٹھیکے لیے ، پچاس سال کیلئے قیمتی زرعی زمین پٹہ پر حاصل کی جس کی مدت ختم ہو چکی ہے اور اس زمین میں سے بڑا حصہ فروخت کیا جا چکا ہے ، اس کی مارکیٹ قیمت 15لاکھ روپے مرلہ سے زائد ہے، ان کے بھائی نیلم میں زمینوں پر قبضے کر چکے ہیں اب بھمبر میں جعلی سگریٹ کا دھندہ شروع کروا دیا ہے۔ سیکرٹ فنڈ کے استعمال پر ایک سابق وزیراعظم کو بلیک میل کیا ، ایسا صرف خوف پیدا کرنے کیلئے کیا گیا ، آج تک جس کسی پر الزامات عائد کیے میرے سمیت کسی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنایا، میں جماعتی ڈسپلن کا پابند ہوں، وزیراعظم میرا انتخابی حریف ہے ، اپنے سیاسی حریف کے جبر اور انتقام کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس کے الزامات کا جواب دینا میرا حق ہے ، چالیس سال سے عملاً سیاست کر رہا ہوں ، میرا سیاسی حریف کسی بھی جماعت کے پلیٹ فارم سے تربیت یافتہ سیاسی کارکن نہیں ، ہمیشہ کسی کی مہربانی یا اسٹیبشلمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر آتا ہے ، چوہدری طارق فاروق نے مزید کہا کہ آزادکشمیر کی سیاست اور معاملات سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار مائنس نہیں کیا سکتا ، یہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے ، اب کی بار اسٹیبلشمنٹ نے اپنا پہلوان میدان میں اُتارا، سیم پیج کا ماحول فراہم کر کے ریاست کے اندر سارا نظام برباد کر دیا گیا ،سب کو پتہ چل گیا ہے کہ اس کے اصل مالک کون ہیں، چوہدری طارق فاروق کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی جنرل یا ادارے کے کہنے پر پاکستانی نہیں بنے بلکہ ہمارے اسلاف نے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں، قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا ، ماضی میں بھی جنرل باجوہ اور فیض حمید کی کشمیر پالیسی اور آزادکشمیر کے معاملات میں مداخلت پر تنقید کی جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے ،آزادکشمیر میں موجودہ تلخی کا ذمہ دار وزیراعظم انوارالحق ہے ،اس نے سیاست کو دشمنی میں بدل دیا ہے ، 5 اگست 2019 کے بعد منعقدہ اسمبلی اجلاس میں میری تقریر ریکارڈ پر موجود ہے جس میں کہا تھا کہ نوشتہ دیوار سامنے لکھا ہے اگر کوئی نہ پڑھنا چاہے تو اس کی مرضی ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کو فیصلہ کرنا پڑے گا، اگر تاخیر ہو گئی تو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے، ہندوستان کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں، زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے اندر یہ طے کرنا پڑے گا کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا کیا کرنا ہے ، اب اسٹیبشلمنٹ کو اپنی بلی تھیلے سے باہر نکال لینی چاہیے، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے مکالمہ شروع کرنے کی ضرورت ہے ،لوگوں سے مشاورت کا یہی بہترین طریقہ ہے اگر لوگ قائل نہ ہوئے تو ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کی پارٹی ہے، ہم سب اس جماعت میں رضاکارانہ طور پر شامل ہوئے تھے، یہ نئے الیکشن قوانین کے تحت سب سے پہلے رجسٹرڈ ہونے والی جماعت ہے ، آزادکشمیر میں راواداری ، وضع داری اور احترام کا رشتہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے موجودہ وزیراعظم نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی یہ خطرناک عمل ہے ، آزادکشمیر کا حساس خطہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ، ایک اورسوال کے جواب پر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے چیئرمین احتساب بیورو کے خلاف دائر رٹ پٹیشن میں جو کچھ وزیراعظم کی ایماء پر لکھا وزیراعظم کو اس کا حساب دینا ہو گا اور یہ حساب لوں گا، یہ حق محفوظ ہے ، چیف جسٹس عدالت العالیہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہماری توجہ دلانے پر 2 پیراگراف حذف کروائے ، بغیر ثبوت کسی پر الزام عائد کرنا اور کردار کشی قابل مواخذہ ہے ، موجودہ وزیراعظم کو بھی عمران خان کی طرح وہ سہارے اور خفیہ بیساکھیاں میسر ہیں ، انہیں عمران خان کے
انجام سے سبق سیکھنا چاہیے ، آزادکشمیر کے معاملات درست کرنے کی ذمہ داری لینے والے پہلے اپنے اندر سے محاسبہ و صفائی شروع کریں ، یہ حقیقت ہے کہ 2021کے الیکشن میں 5 اگست 2019 کے عمل کے خلاف عوامی ردعمل روکنے کیلئے مداخلت کی گئی ، مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے حالیہ انتخابات کشمیر کے قضیہ کو حتمی شکل دینے کی طرف لے جانے کی کوشش ہے ، ان انتخابات میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو آزادکشمیر اور پاکستان کی حکومتوں سے اب کوئی امید باقی نہیںرہی، اسی لئے ماضی میں مسلح جدوجہد میں شامل جماعتیں بھی سیاسی عمل کا حصہ بن گئی ہیں، آزادکشمیر میں اسی پراسیس کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ، پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج پاکستان کے پاس آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے علاوہ دیگر کوئی آپشن دستیاب ہی نہیں ، مقبوضہ کشمیر کے لوگ دھوکہ کھانے کے بعد اب مزید اعتبار نہیں کریں گے، جو تحریک مقامی نہ اس کی کامیابی کے امکانات نہیں ہوتے، عبوری صوبہ اور انضمام کے حوالے سے سوشل میڈیا
اور دیگر ذرائع سے ہونے والی چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں رائے عامہ دیکھنے کیلئے ہوتی ہیں، عبوری صوبہ بھی ایک حل ہو سکتا ہے کیوں کہ ہم نے عبوری آئین قبول کر رکھا ہے ، موجودہ صورتحال میں قیادت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا یہ 50 کی دہائی نہیں اب حالات بدل چکے ہیں، میڈیا بہت طاقت ور ہو چکا ہے باالخصوص سوشل میڈیا کی طاقت سے دنیا کا منظر نامہ بدل رہا ہے ۔ چوہدری طارق فاروق مظفرآبادمیں دورہ روزہ قیام کے بعد واپس اسلام آباد روانہ ہو گئے ہیں، مظفرآباد کے قیام کے دوران جماعتی کوکارکنوں سے ملاقاتوں کے علاوہ مختلف مقامات پر فاتحہ خوانی بھی کیں۔ان کا دورہ مظفرآباد سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے ۔
سیاسی جماعتیں بے اثر،ن لیگ کی حکومت سےعلیحدگی ناگزیر
Comments are closed.