امریکہ کی طاقت کا کیا راز ہے اور امریکہ سپرپاور کیوں ہے؟
امریکہ کی طاقت کا کیا راز ہے اور امریکہ سپرپاور کیوں ہے؟
تحریر:- پروفیسر سید مُلازم حسین بخاری، سیدہ کنول نقوی
دنیا کا آبادی کے لحاظ سے چوتھا ملک اور باون سٹیٹس پر مشتمل ملک کا نام امریکہ ہے اگر ہم پوری دنیا کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں امریکہ ایک مستحکم ملک ہے۔ یہ ملک پوری دنیا کامعیشت، فوجی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے طاقتور ترین ملک ہے اس ملک کو ریاستہاے متحدہ امریکہ کہتے ہیں340 ملین آبادی پر مشتمل ملک جہاں مختلف نسل، رنگ، مذہب اور تہذیب کے لوگ رہتے ہیں امریکہ کی کل آبادی ملین کے لگ بھگ ہےہ سوچنے کی بات ہے کہ امریکہ کس طرح ساری دنیا پر حاوی ہو گیا ہے۔
امریکہ ایک ملک ہے جہاں برے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت نہیں کرتے، جہاں جھوٹ سچ کو مار نہیں دے سکتا، جہاں عدالتیں کسی اور ادارے سے فیصلہ آنے کا انتظار نہیں کرتی، جہاں مذہب کے نام پر سر کاٹ کر فٹ بال نہیں کھیلی جاتی، جہاں علما وطن کی ماؤں بیٹیوں کے لیے گندی زبان استعمال نہیں کرتے۔اس لیے دنیا کی کوئی طاقت امریکہ کو نہیں توڑ سکتی اور نہ ہی کوئی اس سے سپر پاور کا ٹائٹل چھین سکتا ہے۔ اس ملک میں عدل ہوتا ہے اس ملک کے باشندے اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں، امریکہ کی ترقی کا یہ راز ہے۔وہ ملک اس لیے نہیں ٹوٹے گا کیونکہ وہاں کا نظام مضبوط بنیادوں پر مبنی ہے، وہاں قانون کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
پچھلے دنوں روس میں پرکس (BRICS)ممالک کا اجلاس ہوا اور اس سے پہلے شنگھائی کی تعاون تنظیم کے حلیف ممالک کا اجلاس ہوا، ساری کوشش ڈالر کو نیچا دیکھانے اور امریکہ کو کمزور کرنے کے لیے تھی لیکن میں سمجھتا ہوں امریکہ ایک مضبوط اور مستحکم ملک ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت امریکہ کو نہیں توڑ سکتی اور نہ ہی کوئی اس سے سپر پاور کا ٹائٹل چھین سکتا ہے۔
عالمی سیاست کے متحرک منظرنامے میں، امریکہ نے متعدد چیلنجز کے باوجود اپنی حیثیت کو ایک طاقتور سپر پاور کے طور پر برقرار رکھا ہے اس کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عدالتی، سیاسی نظام، اور بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی نے اس کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے، جسکا دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتوں جیسےکہ روس اور چین کے ساتھ کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتاحالانکہ امریکہ میں بھی امن و امان اور اقتصادی مشکلات موجود ہیں، مگر امریکی معیشت کی بعض رکاوٹوں پر قابو پانے کی صلاحیت اس کے جامع حکومتی اور سماجی فریم ورک کی مدد سے مستحکم ہے۔
امریکی اداروں کی مضبوطی میں جتنا مضبوط جوڈیشنر ی سسٹم امریکہ میں ہے کہیں بھی نظرنہیں آئیگا اس کی مضبوطی اس نظام پر مبنی ہےجیسا کہ“حضرت علی علیہ السّلام کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی، اس لیے امریکہ جیسا بھی ہے وہاں اس کے شہریوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ دنیا کے کسی شہری کو اپنے ملک میں حاصل نہیں ہیں اس کے عدالتی نظام پر اس کا پولیٹیکل سسٹم بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے امریکہ کا قانون اور اس کی طاقتور عدلیہ اس کی طویل مدتی استحکام کی ایک اہم وجہ ہے۔
امریکہ کے پاس جتنی طاقتور فوج، ٹیکنالوجی اور معیشت ہے اس سے کہیں زیادہ طاقتور نظام عدل ہے، دنیا نے امریکہ کے طاقتور صدر کلنٹن کو اپنی عدالت میں معافی مانگتے دیکھا ہے، ٹرمپ کے اوپر فرد جرم عائد ہوتی دیکھی ہے اور اب موجودہ صدر جوبائیڈن کے 54 سالہ بیٹے کو اپنے عدالتی نظام کے سامنے بے بس ہوتا دیکھا جا رہا ہے ہنٹر بائیڈن کو 14 لاکھ ڈالر ٹیکس چوری کرنے کے الزام کے ساتھ اسی سے جڑے کئی دوسرے مقدمات کا سامنا ہے ہنٹر جوبائیڈن نے عدالت کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں سماعت شروع ہونے کے کئی گھنٹے پہلے ہی ہنٹر نے عدالت میں ایک درخواست جمع کروا دی جس میں اپنی ٹیکس چوری سمیت کئی دوسرے الزامات کو بھی تسلیم کرتے ہوئے اقبال جرم کر لیا ہے کیونکہ ہنٹر جانتا ہے کہ امریکہ کا عدالتی نظام اس قدر طاقتور ہے کہ کیے ہوئے جرائم کی سزا کے ساتھ جھوٹ بولنے کی الگ سے سزا معاف نہیں کروں گا۔
عدالتی نظام حکومت کی زیادتی کے خلاف ایک چیک اینڈ بیلنس کا میکانزم فراہم کرتا ہے اور شہری حقوق کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ آزادی عوامی اعتماد کو فروغ دینے میں اہمیت رکھتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ مسائل اور شکوے شکایات منصفانہ طریقے سے حل ہوں۔
مزید برآں، امریکہ کا سیاسی نظام، جو کہ اس کی جمہوری اقدار اور اداروں پر مبنی ہے، طاقت کا ہموار انتقال اور عوامی گفتگو کی مضبوط سہولت فراہم کرتا ہے۔ سیاسی تانے بانے میں معاشرے کے وسیع دائرے کی شمولیت کا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جو پالیسی سازی کے عمل میں تنوع اور مختلف نقطہء نظر کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔
امریکہ کا بنیادی ڈھانچہ ( infrastructure) اس کا ایک قومی اثاثہ ہے جو دنیا کے کسی ملک کے پاس نہیں، اس میں تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی و معاشی سسٹم شامل ہیں۔
اس کی یونیورسٹیاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی عظیم درسگاہیں ہیں جن سے چین اور روس ایک صدی پیچھے ہے۔
امریکہ میں اسکا یہی وسیع بنیادی ڈھانچہ اس کی بقاء کا ضامن ہے جو تجارت، مواصلات، اور نقل و حمل کو مضبوط کرتا ہے، اور اس کی اقتصادی بنیاد کو مزید مستحکم کرتا ہے۔
حالانکہ کچھ علاقوں میں یکسانیت نہیں ہے لیکن ان میں بھی جدت پسندی، سرمایہ کاری کا پوٹینشل موجود ہے، امریکہ کا موجودہ ڈھانچہ دنیا میں سب سے ترقی یافتہ ہے، جو امریکہ کو داخلی اور بین الاقوامی میدانوں میں ایک بڑی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔
اقتصادی چیلنجز اور بحالی کی صلاحیت
اقتصادی طور پر، امریکہ کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے آمدنی کی عدم مساوات، صحت کی دیکھ بھال کی لاگت، مختلف ممالک کے ساتھ فوجی تصادم اور ایک متزلزل روزگار کی مارکیٹ جیسے عوامل شامل ہیں۔
تاہم، تاریخ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ملک اقتصادی بحران کے وقت اختراعی اور لچکدار ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کاروباری روح، جدید ٹیکنالوجی، اور اعلیٰ تعلیمی نظام کی بدولت ایک ایسی فضاء فراہم کی جا رہی ہے جو بحالی اور ترقی کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔
ایران سمیت تمام مسلم ممالک امریکہ کے ساتھ عالمی تعلقات میں دوبارہ غور: اسرائیل اس وقت امریکہ کے نزدیک ہے ایسا کیوں ہے ؟ مسلم ممالک عدم تعاون کی پالیسی سے گریز کریں
ایران، پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ ترتیب دیں۔ ایسے ممالک کا تجربہ جیسا کہ اسرائیل، جس نے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک طور پر خود کو ہم آہنگ کیا ہے، اس قسم کی مصروفیت کے ممکنہ فوائد میں قیمتی بصیرت فراہم کرتا ہے۔
بہت سے مسلم اکثریتی ممالک کے لیے، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا تجارت، سیکیورٹی، اور مارکیٹوں تک رسائی میں باہمی فوائد کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسا تعاون نہ صرف اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے بلکہ ثقافتی تبادلے اور بہتر سفارتی تعلقات کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ متضاد مؤقف کے بجائے تعاون پر توجہ دے کر، مسلم قومیں امریکی وسائل، ٹیکنالوجی، اور سرمایہ کاری کی طاقتوں کو بروئے کار لا سکتی ہیں۔امریکہ کے تعاون سے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ ان ممالک کے لیے ایک اچھا دوست ثابت ہو سکتا ہے اگر وہ ممالک بھی منافقت چھوڑ دیں وہ ممالک امریکہ سے عدلیہ، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاسی لچک، اور بنیادی ڈھانچے کی مد میں اپنے ممالک میں تعاون لے سکتے ہیں۔
“کہتے ہیں شیر کے خراٹے کتوں کے بھونکنے سے زیادہ خوفناک ہوتی ہے” امریکہ اس وقت واحد شیر ہے جس کی دھاک ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔ اگر امریکہ مسلم دنیا کے ساتھ بھی وہی مساویانہ سلوک کرے جو اسرائیل کے ساتھ کرتا ہے تو دنیا امن کی طرف جا سکتی ہے غزہ میں سکون اور فلسطین میں امن قائم ہو سکتا ہے امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل پینتالیس ہزار فلسطینی غزہ میں شہید کر کے، حسن نصراللہ کو شہید کر کے بھی گریٹر اسرائیل نہیں بنا سکتا۔ مسلمان امریکہ کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ مسلمان پر امن قوم ہیں اور دہشت پسندی پر یقین نہیں رکھتے۔
امریکہ کو بھی چاہیے کہ وہ مسلم ممالک کے ساتھ اپنی پالیسی میں برابری کی بنیادوں پر استوار کرے۔
امریکہ کا مسلمانوں کے ساتھ* مثبت تعلقات کی بحالی کا تعین ، امن کا راستہ اور فلسطین کی آزادی پر ہے۔امریکہ کو بھی چاہیے مسلم ممالک کی طاقت کو انڈر اسٹیمٹ نہ کرے خاص طور پر ایران کی طاقت کو غیر معمولی نہ سمجھے ایران نے پابندیوں کے باوجود وہ ترقی کی ہے جو دنیا کا کوئی ملک نہیں کر سکتا کیونکہ ترقی معاشی ہو یا دفاعی ترقی ،ہر آزاد ملک کا بنیادی حق ہے
مشرق وسطیٰ کی سیاست کے پیچیدہ تانے بانے میں، امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات ایک لمبے طویل عرصے سے تناؤ اور تنازعہ کا شکار ہیں۔ تاہم، ان تعلقات پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر امن و استحکام، اور مسلم کمیونٹیز کی حمایت جیسے فلسطین اور غزہ کے تاریخی تناظر میں امریکہ اور ایران کے تعلقات نمایاں تاریخی واقعات سے بھرے ہوئے ہیں، جن میں 1953 کا انقلاب شامل ہے جس میں ایران کے منتخب وزیراعظم محمد مصدق کو معزول کیا گیا اور 1979 کا ایرانی انقلاب جس نے سفارتی تعلقات کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد سے، امریکہ کی پالیسی ایران کی نسبت پابندیوں، تنہائی، اور کبھی کبھار مذاکرات کے درمیان جھولتی رہی ہے، خاص طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے۔ یہ مخالفانہ رویہ اکثر اس امکان کو نظر انداز کرتا ہے کہ ایران خطے میں ایک مستحکم قوت کے طور پر عمل کر سکتا ہے جو فرقہ وارانہ تشدد، بیرونی مداخلت، اور انسانی بحرانوں سے گزر رہا ہے۔
اس خطے میں ایران کی اسٹریٹجک حیثیت
ایران مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اس کا پاکستان ، سعودی عرب، شام، لبنان، اور یمن میں کافی اثر و رسوخ ہے۔ اس کی جغرافیائی حیثیت امریکہ کے لیے کسی بھی کوشش میں ایک اہم شراکت دار بن سکتی ہے جو خطے میں طویل مدتی امن حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایران کے ساتھ مشغول ہو کر، امریکہ اس اثر و رسوخ کو محفوظ رکھ سکتا ہے تاکہ وہ سفارتی حل کو فروغ دے سکے۔لیکن امریکہ شائید اپنے سپر پاور کے ٹائٹل کو کھو دینے کے ڈر سے ہچکچاہٹ اور خوف کا شکار نظر آتا ہے۔
ایٹمی عزائم کے خدشات کے ساتھ، یہ ضروری ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ایران اکثر انتہاء پسندی کے خلاف ایک متبادل قوت کے طور پر خود کو پیش کرتا ہے جو کہ خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ ایران کے بارے میں اپنی حکمت عملی کا دوبارہ تعین کر کے، امریکہ کے پاس ایک زیادہ پیچیدہ اور تعمیری گفتگو کو فروغ دینے کا موقع میسر ہوسکتا ہے، جو صرف دو طرفہ تعلقات کو ہی نہیں بلکہ وسیع تر خطے کے امن کی فضاء کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ سو فیصد یقین ہونا چاہیے کہ ایران یا پاکستان کبھی بھی ایٹمی طاقت کا ناجایز استعمال نہیں کریں گے کیونکہ اسلام کے روشن أصول انسانیت کے کبھی خلاف نہیں رہے۔
کشمیر ،فلسطین اور غزہ کی حمایت
کشمیر اور فلسطینی لوگوں کی مصیبت ہمیشہ سے امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔
امریکہ نے تاریخی طور پر اسرائیل کی حمایت کی ہے، اکثر کشمیر اور فلسطینی مفادات کی قیمت پر۔
البتہ، ایران نے فلسطینی حقوق کی ایک واحد نڈر اور بلند حمایتی آواز کے طور پر خود کو پیش کیا ہے، جو کہ امریکہ کے لیے ایک پوائنٹ فار انٹریکشن ہو سکتا ہے۔ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کے ذریعے، امریکہ فلسطینی-اسرائیلی تنازعہ کو ایک ایسے نقطہِ نظر سے دیکھ سکتا ہے جو ایرانی آراء کو بھی شامل کرتا ہے، ممکنہ طور پر مزید واضح اور تفصیلی جامع حل کی طرف لے جا سکتا ہے۔ مزید برآں، ایران کے مختلف فلسطینی دھڑوں، جیسے حماس اور اسلامی جہاد، کے ساتھ روابط امریکہ کے لیے ایک ایسی بات چیت کو آسان بنا سکتے ہیں جو امن کی راہ ہموار کرنے میں ایک مضبوط پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کی انسانی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ امریکہ ایک متوازن نقطہِ نظر کی وکالت کر کے یہ یقینی بنا سکتا ہے کہ اس کی پالیسیاں فلسطینیوں کے حقوق اور خواہشات کی حمایت کرتی ہیں جبکہ اسرائیل کے ساتھ بھی بات چیت کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ ایک وسیع امن کی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہے جو کہ تنازعے کے دونوں طرف کی آوازوں کو مدنظر رکھتا ہے۔
وفاداری کی بنیاد پر اتحاد بنانا وفاداری اور اعتماد کے اعتبار سے، امریکہ کے بعض عرب ریاستوں کے ساتھ تاریخی تعلقات اکثر غیر مستقل وفاداریوں اور خطے میں حریفانہ تنازعات کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے قومی مفادات کی بنیاد پر، یہ امریکہ کے مفادات سے نمایاں طور پر مختلف ہو سکتے ہیں، خاص طور پر انسانی حقوق، حکمرانی، اور فلسطینی مسئلے کے حوالے سے۔
اس کے برعکس، ایران مختلف مسلم کمیونٹیز، بشمول فلسطینیوں کے ساتھ مستقل نظریاتی اور ثقافتی تعلقات قائم کرتا ہے۔ یہ رشتہ ایک وفاداری کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے جسے امریکہ استحکام اور امن کے قیام کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔اسی طرح، پاکستان اگرچہ ایک اہم اتحادی/ملک ہے، اپنے تعلقات میں بعض چیلنجز اور پیچیدگیاں رکھتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں علاقے کی حرکات کو سمجھنا امریکی خارجہ پالیسی کے لیے ایک حکمت عملی فراہم کر سکتا ہے جو کہ تعاون کی بجائے تصادم کو فروغ دیتی ۔ امن کی حمایت اور فلسطینی حقوق کی حمایت کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ تعین کرنے کا موقع امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ میں اپنے کردار کو دوبارہ منظم کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ ایران کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے، امریکہ اس پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں اپنی روشنی کو مثبت طور پر متاثر کر سکتا ہے۔
اس حکمت عملی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کی جائے، خاص طور پر استحکام کو فروغ دینا، غزہ اور فلسطین میں انسانی کوششوں کی حمایت کرنا، اور علاقے میں امن کے لیے ایک زیادہ متوازن اور منصفانہ نقطہِ نظر کو فروغ دینا ہے۔ اس طرح، امریکہ ایک بات چیت اور تعاون کا سہولت کار بن کر ابھر سکتا ہے، نہ کہ مشرق وسطیٰ میں انصاف اور امن کی مسلسل جدوجہد میں صرف ایک ملک کی حمایت میں پورے علاقے میں عالمی جنگ کی بنیاد بنے۔