آزادکشمیرمیں مصنوعی ماحول پیداکیاجارہا،طارق فاروق
اسلام آباد/مظفرآباد(نمائندگان کشمیر ایکسپر یس ) پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادجموں وکشمیر کے سیکرٹری جنرل چوہدری طارق فاروق نے کہا ہے کہ آزادکشمیر میں غیر نظریاتی، غیر سیاسی، غیر جماعتی اور غیر حقیقی مصنوعی ماحول پیدا کر کے وزیراعظم آزادکشمیر اپنے مذموم سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے سرگرم ہے
آزادکشمیر کے مختلف علاقوں کے دورے سرکاری وسائل پر غیر اعلانیہ انتخابی مہم کا حصہ ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے، جن کی خواہش کے احترام میں آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں موجودہ غیر فطری نظام کا حصہ بن کر اپنے کارکنوں کو بھی مایوس کر رہی ہیں انہیں اپنی تعزویراتی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی سیاست سے غیر محسوس طریقے سے آئندہ کے انتخابی عمل سے باہر کیا جا رہاہے۔ وزیراعظم اپنی غیر سیاسی اور غیر نظریاتی فسطائی سیاست کی مخالفت کرنے والے سیاسی اکابرین کو مافیا کا نام دیتے نہیں تھکتے
جب کے ان ہی سیاسی راہنمائوں نے نظریاتی، ترقیاتی اور ادارہ جاتی سیاست و ریاست کو فروغ دیکر پاکستان کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے رکھا اور اس پر آنچ نہیں آنے دی۔ آزادجموں کشمیر میں پاکستانیت کو کوئی خطرہ نہیں پاکستانیت کشمیریوں کے خون میں شامل ہے۔
میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر کے وزیراعظم اپنے اقتدار اور مفادات کے لئے نوجوانوں کو اُکساتے رہے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ آزادکشمیر کے وسائل اور عوامی حقوق غصب شدہ ہیں، اسی تاثر کی وجہ سے پاکستان کی حکومت اور ادارے بھی بلیک میل ہوئے۔
آج خطہ کے اندر جو نظریاتی خلفشار، انتشار اور افراتفری ہے یہ فرد واحد کی سوچ اور طرز عمل کا شاخسانہ ہے، کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی ہے، الحاق پاکستان کا یہ سفر گزشتہ 77 سال سے جاری ہے اور اس کی حتمی منزل تکمیل پاکستان ہے،
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد جموں کشمیر میں الحاق پاکستان مخالف سوچ ہمیشہ سے موجود رہی ہے، سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات خان کے ادوار میں بھی ان کی قابل ذکر تعداد اپنے نظریے کے پرچار کے لئے سرگرم رہی۔
مقبول بٹ شہید ،کے ایچ خورشید، عبدالخالق انصاری اور امان اللہ خان اپنی سیاسی جماعتوں کے ذریعے الحاق مخالف نظریات کی ترویج کرتے رہے ،لیکن جو تلخی اور نفرت کی فضا ء آج ہے اس کے بیج خود موجودہ حکمرانوں نے بوئے ہیں۔ سیاسی نظریاتی اختلاف کو ذاتی دشمنی کی نذر کیا جا رہا ہے جو غیر جمہوری فسطائی سوچ اور طرزعمل کا مظہر ہے
اس کے دورس نتائج اور غصے کی فصل ذمہ داران کو کاٹنا پڑے گی۔اس خطہ کے اندر اتنی آزادی تو موجود رہی ہے کہ لوگ اپنے نظریات کے فروغ اور سوچ کیلئے کام کر سکیں۔وزیراعظم آزاد حکومت کا یہ دعویٰ کہ ان کے مختلف علاقوں کے دورے نظریہ الحاق پاکستان اور نظریہ پاکستان بچانے کیلئے ہیں خلاف حقائق ہونے کے ساتھ ساتھ خلاف واقعات بھی ہیں
لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ سینیٹ کی ایک کمیٹی میں موصوف نے پاکستان کے ساتھ وابستگی رکھنے والی آخری نسل ہونے کا دعویٰ کیا تھا یہ ان کی اپنی ذہنی حالت کی نشاندہی کرتا ہے، آزادکشمیر میں ایک پیج کا تاثر دے کر اپنے عزائم کی تکمیل کی جا رہی ہے
نظریہ الحاق پاکستان کیلئے ماضی میں کام کرنے والے سیاسی اکابرین اور سیاسی جماعتوں کو جو شخص مافیا قرار دیتا ہے اور خود کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتا ہے اس کے قول و فعل کے تضادات کھل کر سامنے آ رہے ہیں، جو شخص خود ابھی تک ’’ایپلائیڈ فار‘‘ ہے وہ سیاسی سرگرمیوں کیلئے رجسٹریشن کا قانون نافذ کر رہا ہے
اس قانون کا اطلاق وزیراعظم کی ذات پر نہیں ہوتا کیوں کہ یہ وزیراعظم نظریے، عقیدے اور سیاسی جماعت سے وابستگی پر یقین ہی نہیں رکھتا، ان کی خاندانی سیاست کا آغاز لبریشن لیگ سے شروع ہو کر مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی پھر مسلم کانفرنس، پھر پیپلزپارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، پیپلز مسلم لیگ اور تحریک انصاف تک پہنچ چکا ہے اور اگلی منزل کی تلاش جاری ہے
جو خود کئی کشتیوں کا سوار ہے اس کے منہ سے قوم کی سمت درست کرنے کا دعویٰ مناسب نہیں۔چوہدری طارق فاروق کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر کے اندر پیدا کیا گیا موجودہ ماحول قومی مفادات کے منافی ہے، اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے
سیاسی اُفق پر پیدا کی گئی مایوسی سیاسی جماعتوں کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے، موجودہ وزیراعظم کے لایعنی بیانیہ اور اقتدار کی تائید و حمایت کرنے والے زعماء اور سیاسی جماعتوں کو سیاست چھوڑنا پڑے گی یا انہیں نظریاتی اور انتخابی سیاست کو درست سمت میں رکھنا ہو گا۔
عوام کے اندر حکومت کے حوالے سے کوئی تائید وحمایت موجود نہیں، ہر جگہ سرکاری ملازمین اور سکولوں ،کالجوں کے طلباء و طالبات کو زبردستی وزیراعظم کے استقبال کیلئے لایا جاتا ہے یہ ان کی عوامی مقبولیت کا ثبوت ہے، دھمکیاں دینا، دوسروں کو چور کہنا اور خود کو مسیحا کے طور پر پیش کرنا نرگسیت کے عارضہ کی علامات ہیں جس کے علاج میں مزید تاخیر ناقابل تلافی قومی نقصان کا باعث ثابت ہو سکتی ہے