کملہ ہیرس کو مسلمانوں کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت لے ڈوبی
کملہ ہیرس(Kumla Harris) کو مسلمانوں کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت لے ڈوبی۔ڈونلڈ ٹرمپ(Donald Trump )کی جیت پوری دنیا میں ایک مثبت تبدیلی کی امید
تحریر:- پروفیسر سید مُلازم حسین بخاری،
امریکہ دنیا کا آبادی کے لحاظ سے تو چوتھا بڑا ملک ہے لیکن طاقت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر تعلیم و ہنر اور انصاف میں اس کا پوری دنیا میں پہلا نمبر ہے، پانچ نومبر 2024 کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے سنتالیسویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔کملہ ہیرس کو اسرائیل کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت لے ڈوبی۔کہتے ہیں کہ امریکہ کے الیکشن ایک ہی آدمی(جوئش اور اسٹیبلیشمنٹ) کے دو جوتے ہیں یعنی جو بھی جیتے اس سے امریکہ کی پالیسی تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ اس پر جوئش لابی کافی مضبوط ہے۔لیکن کیا امریکہ اسیرائیل کے لیے اپنی، معیشت، داخلی آزادی کو قربان کر دے گی، اب نوجوان نسل کی سوچ تبدیل ہوچکی ہے اور امریکہ اپنے داخلی معاملات پر زیادہ توجہ دیگا اور دوسروں کی سرحدوں میں مداخلت کی بجائے اپنی سرحدیں اور معیشت مضبوط کرنے پر زیادہ توجہ دیگا۔
اس وجہ سے ٹرمپ کی جیت کے حوالے سے مختلف اندازے لگائے جا رہے ہیں، خاص طور پر اس کے ممکنہ مثبت اثرات پر۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی قیادت میں پیداوار کے شعبے میں خصوصی انتظامات سے معیشت میں بہتر تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ممکنہ مثبت اثرات میں/بھی شامل ہو سکتے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا/نے وکٹری اسپیچ میں خطاب میں کہا ہے کہ میں جنگیں شروع کرنے نہیں جنگیں ختم کرنے آیا ہوں۔ امریکہ میں بیشک جو ئیش لابی بہت مضبوط ہے مگر مسلم لابی کا بھی ایک بہت بڑا کردار ہے، پچھلی دفعہ ٹرمپ اس لیے ہارا تھا کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف بیانات دییے تھے لیکن اس دفعہ اس نے الیکشن سے پہلے کچھ دن امریکہ کے ان علاقوں میں گزارے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کروائیں گے بلکہ فلسطین کا مسئلہ بھی حل کروائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد دنیا کو چند ممکنہ تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، چاہے وہ اس کی پالیسیوں کی صورت میں ہو یا سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے۔ یہاں کچھ ممکنہ اثرات ہیں:
معاشی پالیسی:
ٹرمپ کی غیر معمولی مینجمنٹ سے تخلیقی افراد کو اپنے خیالات سے آگے بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے، جو کہ بہترین سینما کی پیدائش کا باعث بن سکتا ہ معاشی تبدیلی ٹرمپ کی مہم کا حصہ رہا ہے اور نوجوان نسل نے اس وجہ سے انہیں ووٹ دیا کئی ملین نئے ووٹرز نے اس وجہ سے منتخب کیا۔ امریکہ دنیا میں مختلف سیاسی جنگوں میں شامل ہے اس لیے نوجوان نسل سمجھتی ہے کہ ان کے ملک میں نئی تبدیلی آئے اور جنگوں پر ان کے ٹیکس سے جو اخراجات ہو رہے ہیں وہ نہ ہوں اور اپنی عوام پر اخراجات ہوں۔ جن جنگوں میں امریکہ براہ راست ملوث ہے انہیں اختتام کو پہنچانا ہوگا۔ٹرمپ کی کاروباری مہارت اور سرمایہ کاریوں کی حوصلہ افزائی سے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس کا اثر تفریحی صنعت پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ٹیکس میں اصلاحات:
ٹرمپ کی کامیابی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انتہا پسندی صرف غریب اور کم تعلیم یافتہ ممالک کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکا جیسے پڑھے لکھے اور مضبوط معیشت کے حامل ملک کے عوام بھی اس آگ میں جھلس رہے ہیں۔ امریکہ میں سب سے زیادہ ٹیکس دیا جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے افراد اور کاروباروں کے لیے ٹیکس میں کمی، اقتصادی ترقی کو تحریک دےسکے لیکن اس کے نتیجے میں قومی قرضے میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
تجارتی معاہدے:
تجارتی پالیسی میں تبدیلی، ممکنہ طور پر زیادہ تحفظ پسند اقدامات، عالمی تجارتی پالیسیوں اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔امریکہ کے مقابل جو برکس (BRICS)ممالک تجارتی پالیسی اپنا رہے ہیں ٹرمپ انتظامیہ اس کے مقابلے میں بہتر پالیسی اپنا کر کاونٹر کر سکتی ہے.
غیر ملکی پالیسی:۔
قومی پرستی: “امریکہ پہلے” کے اصول پر زور دیے جانے سے کثیر جہتی معاہدوں اور تعاون میں کمی آ سکتی ہے، جس کا اثر موسمیاتی تبدیلی اور ملکیُ داخلی سیکیورٹی جیسے امور پر عالمی تعاون پر ہو سکتا ہے۔
چین کے ساتھ تعلقات: چین تجارت کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ تناؤ کو کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی جانب زیادہ متصادم رویہ امریکہ کی تجارتی تناؤ کو بڑھا سکتا ہے اور عالمی سپلائی چین پر اثر ڈال سکتا ہے۔ اس لئے اچھے تعلقات تجارتی پالیسیوں پر اچھے اثرات مرتب کر سکتے ہیں ۔
سماجی پالیسی:
ہجرت کی اصلاحات: دنیا کا ہر انسان امریکہ جانا چاہتا ہے اس وقت بھی پچاس ملیئن لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ میں آباد ہیں۔ اس لیے ٹرمپ نے اپنے وکٹری سپیچ میں کہا کہ دوسرے ممالک میں جنگ لڑنے سے پہلے میں امریکہ کی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے پر زیادہ کام کروں گا اور اب کوئی بھی امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل نہیں ہوگا، جو امریکہ آنا چاہیے جائز طریقے سے آئے۔
اس لئے ٹرمپ انتظامیہ موجودہ امیگریشن پالیسیوں میں بہتری پیدا کر سکتی ہے کیونکہ امیگریشن پالیسیوں میں ممکنہ تبدیلیاں عالمی نقل مکانی کے نمونوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔
تعلیم و ہنراور صحت کی دیکھ بھال:
امریکہ کے پاس دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں، اس کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی کا سمندر ہے اور پوری دنیا سے لوگ اس لیے بھی اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔ شعبہ طب کے میدان میں بھی امریکہ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس پر بھی بہتر توجہ دی جائیگی اور معیاری صحت کی دیکھ بھال کے قانون کو ختم کرنے یا اس میں تبدیلیوں کی کوششیں، امریکیوں کے لیے صحت کی رسائی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کی تحریکات کو جنم دے سکتی ہیں۔
عدالتی تقرریاں:
امریکہ میں تمام شعبوں سے زیادہ مضبوط اس کا نظام انصاف ہے جس پر امریکہ کی کوئی طاقت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔سپریم کورٹ میں تقرریاں مختلف قوانین کی عدالتی تشریحات کو متاثر کر سکتی ہیں، جو کہ قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
انرجی پالیسی:
فوسل فیولز پر توجہ: فوسل فیول کی پیداوار پر زور دیا جانا عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کوششوں پر مثبت اثر ڈال سکتی/سکتا ہے اور دیگر ممالک کی توانائی کی پالیسیوں کے لیے بھی ایک مثال بن سکتی/سکتا ہے۔
سیاسی منظرنامہ:
عوامی تحریکیں اور قومی پرستی: (Populism and Nationalism)
ٹرمپ کی کامیابی سے دیگر ممالک میں عوامی تحریکوں کو تقویت مل سکتی ہے، جس سے عالمی سیاسی رجحانات میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ کیونکہ دنیا جنگوں اور خون خرابے سے تنگ آ چکی ہے۔ یہ نتائج اس بات پر منحصر ہوں گے کہ ٹرمپ کی کامیابی کا کیا تناظر ہے، جیسے کہ اگر یہ دوبارہ انتخاب یا ریپبلکن پارٹی پر اثر و رسوخ کے ذریعے ہو، اور اس وقت کے عالمی حالات۔جغرافیائی منظر نامہ مسلسل ترقی پذیر ہے، اور دنیا کے مختلف تنازعات سیاسی حرکیات، قیادت، اور بین الاقوامی مداخلتوں کی بنیاد پر تبدیلیوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔
یہاں فلسطین، ایران-اسرائیل تناؤ، اور یوکرین-روس جنگ کے مخصوص تنازعات کے حوالے سے کچھ توقعات پیش کی گئی ہیں: غزہ، عراق و شام کے حوالے سے بھی پالیسیاں اہمیت کی حامل ہیں۔ آیا شام میں اِسی طرح معصوم بچوں اور انسانوں کا لہو بہایا جاتا رہے گا یا اِس حوالے سے کچھ عملی اقدامات اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی اور سب سے اہم بات یہ کہ عراق میں داعش کے خلاف سنجیدگی سے ایکشن لینے کا فیصلہ ہوگا یا پھر دھوکہ دہی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
فلسطینی گروپ نے ایک بیان میں کہا، “نئی امریکی انتظامیہ کے بارے میں ہماری پوزیشن کا انحصار اس کے فلسطینی عوام، ان کے جائز حقوق اور ان کے منصفانہ مقصد کے تئیں اس کے موقف اور عملی رویے پر ہے.
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے صدر کو غزہ پر جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے خود امریکی برادری کی آوازوں کو سننا چاہیے، اس نے مزید کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ کو “اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہمارے لوگ قبضے کا مسلسل مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ کسی کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ راستہ جو ان کے حقوق کو کم کرتا ہے
1. اسرائیل-فلسطین تنازعہ: –
امریکہ سوچے گا کہ فلسطین تنازعہ کو حل کروایا جائے کیونکہ اقتصادی بحرانوں کی وجہ اسرائیل ہے اور حماس نے کہا ہے کہ ہم ٹرمپ پر زور دیتے ہیں کہ وہ بائیڈن کی غلطیوں سے سبق لیں۔ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے وکٹری کی تقریر میں کہا ہے کہ وہ جنگیں شروع کرنے نہیں جنگیں ختم کرنے آیا ہے ،
سفارتی کوششیں: امریکہ ضرور اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لائے گا اور ایران و عرب ممالک فلسطین کی آزادی کے بغیر کو ئی اور حل نہیں چاہتا جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا ان کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ٹرمپ انتطامیہ بات چیت کی تجدید کروا سکتی ہے، ممکنہ طور پر دو ریاستی حل کے بارے میں بحث کو بحال کر سکتی ہے۔
بین الاقوامی مداخلت: بین الاقوامی اداروں یا غیر سرکاری تنظیموں سے دباؤ بڑھنے کی صورت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مزید کارروائیوں یا پابندیوں کے مطالبات کیے جا سکتے ہیں۔
1. ایران-اسرائیل تعلقات:
پراکسی تنازعات: ایران نے ہمیشہ فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کی ہے اور اس کا اثر عراق، شام، یمن اور لبنان (حزب اللہ) میں بھی نظر آتا ہے اور جہاں ایرانی اثرورسوخ ہے وہ بھی فلسطین کے لئے کوشاں ہیں اور یہ سب اسرائیلی فوجی کاروائیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں اگر اس معاملے کو ٹیبل پر بیٹھ کر طے کر لیا گیا تو مڈل ایسٹ میں ممکنہ تناؤ کم ہو سکتا ہے۔
جوہری مذاکرات: دنیا میں کئی جوہری ممالک ہیں ان میں اگر ایک ایران کے جوہری پروگرام میں اضافہ ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے اور ایران کا یہ پروگرام توانائی کے حصول کے لئے رہے گا اگر اسے زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ اگر ایران پر پابندیاں نرم کی جائیں تو ایران کو مغرب کے قریب لے جا سکتی ہیں، جو مڈل ایسٹ میں مستقل امن کی راہ میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔پاکستان اور ایران کبھی بھی انسانیت کے خلاف ایٹم کا استعمال نہیں کریں گے کیونکہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور کبھی بھی ہیروشیما یا ناگاساقی کی تاریخ نہیں دہرائیں گے۔
امریکی پالیسی کا اثر: ایران کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں تبدیلیاں، بشمول ممکنہ مذاکرات یا فوجی حکمت عملیوں، فلسطین کی سیکیورٹی حکمت عملیوں اور ایران کے علاقائی عزائم پر اہم اثر ڈال سکتی ہیں۔
2. یوکرین-روس جنگ:
یہ متوقع ہے کہ یہ تنازعہ بھی کم ہو گا، جس میں ممکنہ طور پر تشدد یا حل دونوں کے امکانات، روس اور امریکہ دونوں ممالک کی فوجی حکمت عملیوں، سفارتی مداخلتوں، اور داخلی دباؤ پر منحصر ہوں گے۔
یوکرین کے لیے بین الاقوامی حمایت: مغربی اتحادیوں سے مسلسل فوجی اور انسانی امداد یوکرین کی دفاعی قوت کو مضبوط کر سکتی ہے لیکن اگر غفلت کی گئی تو مزید روسی جارحیت کو بھی تحریک دے سکتی ہے۔
مذاکرات اور جنگ بندی: ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے ، مذاکرات یا جنگ بندی ہو سکتی ہیں، خاص طور پر جیسا کہ دونوں فریق اپنی پوزیشنز اور طویل مدتی تنازعے کی قیمتوں کا اندازہ لگاتے ہیں۔ تاہم، اعتماد کے مسائل اور علاقائی تنازعات اہم رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں۔
3. بڑے اثرات:
عالمی اتحاد میں تبدیلی: ان تنازعات کے نتائج عالمی اتحاد میں دوبارہ ترتیب کا باعث بن سکتے ہیں، جو بین الاقوامی تجارت، دفاعی شراکت داریوں، اور سفارتی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
انسانی بحران: جاری جنگیں اور تنازعات اکثر انسانی بحرانوں کا باعث بنتی ہیں، جن میں بے گھر، پناہ گزینوں کی تحریکیں، اور بین الاقوامی انسانی امداد کے مطالبات میں اضافہ شامل ہے۔
جبکہ یہ توقعات موجودہ حرکیات کی بنیاد پر ہیں، ان علاقوں کی صورتحال متحرک ہے، اور غیر متوقع ترقیات نمایاں طور پر واقعات کے راستے کو تبدیل کر سکتی ہیں۔
مسلمان فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر امید رکھ سکتے ہیں، جو کہ سیاسی، سماجی، اور بین الاقوامی حالات پر منحصر ہیں۔ یہاں کچھ ایسی امیدیں بیان کی گئی ہیں:
1. سیاسی مواقع:
مذاکرات کی بحالی: اگر امریکہ اور ایران کے تعاون سےفلسطینی اور اسرائیلی قیادت کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہوں، تو ایک ممکنہ دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کی امید کی جا سکتی ہے۔
عرب اتحادیوں کا تعاون: عرب ممالک کی جانب سے فلسطینی cause کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوششیں، فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔
2. بین الاقوامی حمایت:
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون: بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی حقوق کے لیے حمایت، خاص طور پر جب عالمی برادری فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتی ہے، تو یہ امیدوں کا باعث بن سکتا ہے۔
عالمی تحریکات: عالمی سطح پر انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کی حمایت میں چلنے والی تحریکات، جیسے BDS (Boycott, Divestment, Sanctions) تحریک، فلسطینی آزادی کے لیے دباؤ بڑھا سکتی ہیں۔
3. سماجی جدوجہد:
مسلم دنیا میں فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے عوامی حمایت کی امید ہمیشہ موجود رہتی ہے، جو کہ مظاہروں، آگاہی مہمات اور فنڈریزنگ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔نسل نو کی تعلیم اور آگاہی بیداری فلسطین کے مسئلے کے بارے میں شعور بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، جو کہ طویل مدت میں حمایت فراہم کر سکتی ہے۔
4. علاقائی حالات:
علاقائی چین کے اثرات: اگر ایران، ترکی سعودی عرب، اور دوسرے مسلم ممالک کی جانب سے فلسطینی حقوق کی حمایت بڑھتی ہے تو یہ فلسطین کی آزادی کے لیے مثبت تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔خطے میں سیاسی تبدیلیوں اور عوامی تحریکوں کے دوران، فلسطینی عوام اپنے حقوق کے لیے مزید موثر آواز اٹھا سکتے ہیں۔
5. نئی نسل کی قیادت:
نوجوان فلسطینی لیڈروں کی اُبھرتی ہوئی نسل، جو جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے، اپنی آواز بلند کر سکتی ہے اور عوامی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔یہ تمام پہلو مسلم دنیا میں فلسطین کی آزادی کے لیے ایک مثبت امید پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم، حقیقی اور مستقل تبدیلی کے لیے مسلسل کوشش اور بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔
مسئلہ کشمیر
فلیطین کی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی بہت پرانا ہے اور یو این او کی ٹیبل میں سرد خانہ میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد آزادی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی امیدیں مختلف عوامل پر منحصر ہیں۔ پاکستان کے اندرونی معاملات، اقتصادی استحکام اور سیاسی استحکام بھی اس بات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو کتنےمؤثر طریقے سے عالمی سطح پر اٹھاتا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر پاکستان آزادی کشمیر کے حوالے سے امیدوں میں اضافہ یا کمی کر سکتے ہیں۔ اس لیے، ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پاکستان کے لیے ایک موقع ہو سکتا ہے، لیکن یہ بہت سی باہمی اور بین الاقوامی حرکیات پر منحصر ہے۔
برسے گا ٹوٹ ٹوٹ____کر ابرِ محبّتاں
ہم چیختے رہیں گے کہ حاجت نہیں رہی
اک روز کوئی آئے گا لے کر فرصتیں
اک روز ہم کہیں گے ضرورت نہیں رہی