علامہ اقبال اسلامی قومیت کے علمبردار تھے،ثمینہ احسان
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) اقبال کی شخصیت جہد مسلسل ،علم و عمل اور غور و تدبر سے مزین تھی۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے اور انہوں نے سوئی ہوئی مسلم قوم کو بیدار کرنے کے لیے اپنے افکار اور اشعار سے کام لیا
علامہ اقبال اسلامی قومیت کے علمبردار تھے۔ ان کی اسلامی اور ملی شاعری آفاقیت کے منافی نہیں۔ درحقیقت اقبال کی انسان دوستی کو قرآنی تصور توحید سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔
نظریہ توحید ہی مستقل طور پر انسان کو خوف سے نجات دلاتا ہے اور مظلوم میں ظالم سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی حلقہ خواتین شمالی پنجاب کی ناظمہ ثمینہ احسان نے یوم اقبال کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ 21ویں صدی ماضی کی صدیوں سے زیادہ حساس صدی ہے کہ حضرت انسان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔جہاں ایک طرف تو دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے وہیں مذہب وعقیدے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
مادیت کی دوڑ میں روحانیت کو کچلا جا چکا ہے ۔عقائد میں مکالمہ ختم ہو چکا ہے جبکہ ہر فساد کے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں ایسے میں علامہ اقبال کے افکار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ جنہیں پھیلا کر امن و آشتی کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔
اقبال نے مسلمانوں کو الگ پہچان کے ساتھ سر اٹھانے کی تحریک دی۔ “درحقیقت شمال مغربی ہندوستان میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن بنانے کا تصور سب سے پہلے اقبال نے ہی پیش کیا۔” وہ ایک فکری قوت تھے اور ملت اسلامیہ میں ایک نئی امید پیدا کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے یہ باور کروایا کہ یہ قوم غلام ہو ہی نہیں سکتی، اس لیے تمام مسلمان یکجا ہو کر اپنی پہچان کے لیے ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں تو آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ علامہ اقبال مسلمان سے جدت کردار کا طالب ہے اس لیے واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
آج کے دور میں ان کے پیغام کو نوجوان نسل تک احسن طریقے سے پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ کلام اقبال ہی کے ذریعے قوم کے مستقبل کو ملک و قوم کی تعمیر میں مگن کیا جا سکتاہے۔ ہمارا ملک جن مصائب کا شکار ہے ان سے نکلنے کے لیے اقبال کے شاہینوں کو میدان عمل میں
پاکستان کےباصلاحیت نوجوان مایوسی کی فضاکوعلم سےبدلیں
آنے کی ضرورت ہے۔