12ویں جوڈیشل کانفرنس ،گزشتہ چار سالہ کارکردگی کا جائزہ
مظفرآباد(کشمیر ایکسپریس نیوز)آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ کے زیر اہتمام “فراہمی انصاف: جدید نقاضے اور مشکلات”کے عنوان سے 12ویں جوڈیشل کانفرنس منگل کے روز منعقد ہوئی۔ جوڈیشل کانفرنس سے صدر آزادجموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ، جج عدالت العالیہ جسٹس میاں عارف حسین نے خطاب کیا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل شیخ مسعود اقبال،سیکرٹری قانون وحید الحسن شاہد،وائس چیئرمین بارکونسل سید اشفاق حسین کاظمی،صدر سپریم کورٹ بار جاوید نجم الثاقب، صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن خالد بشیر مغل اور رجسٹرار ہائی کورٹ چوہدری محمد فیاض ویلکم نوٹ پیش کیا اور شرکائ کو جوڈیشل کانفرنس اآمد پر خوش آمدید کہا ۔ جوڈیشل کانفرنس میں سینئر جج عدالت العالیہ جسٹس سردار لیاقت حسین، ججز عدالت العالیہ جسٹس سید شاہد بہار، جسٹس محمد اعجازخان، جسٹس چوہدری خالدرشید سمیت سیکرٹری صاحبان آزادکشمیر حکومت، ڈسٹرکٹ وسیشن ججز، ضلع قاضی صاحبان ، صدور،جنرل سیکرٹری وممبران بار کونسل، سپریم کورٹ بار،ہائی کورٹ بار،سینٹرل بار،ڈسٹرکٹ وتحصیل بار ایسوسی ایشنز سمیت آزادکشمیر بھر سے وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔جوڈیشل کانفرنس میں گزشتہ چار سالہ کارکردگی پر بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل رجسٹرارریاض شفیع نے بتایا کہ یکم جنوری2020کو عدالت العالیہ میں کل 9237مقدمات زیر کار تھے۔ سال 2020تا2024کے دوران 46349نئے مقدمات دائر ہوئے۔ اس طرح سال 2020تا 2024کے دوران عدالت العالیہ آزادجموں وکشمیر میں زیر کار مقدمات کی کل تعداد 55586بنتی ہے جن میں سے اس عرصہ کے دوران 38560مقدمات یکسو کیے گے اور سال 2024کے اختتام پر عدالت العالیہ ہیڈ کوارٹر وجملہ سرکٹ ہاء میں 17026مقدمات زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسی طرح جملہ ضلعی عدالت ہاء آزادجموں وکشمیر میں یکم جنوری 2020کو 41215 مقدمات زیر کار تھے۔ سال 2020تا2024کے دوران 278808مقدمات دائر ہوئے۔ اس طر ح سال 2020تا2024کے دوران جملہ ضلعی عدالت ہاء آزادجموں وکشمیر میں زیر کار مقدمات کی تعداد 320023بنتی ہے جن میں سے متذکرہ عرصہ کے دوران 276171مقدمات یکسو کیے گئے اور سال 2024کے اختتام پر جملہ ضلعی عدالت ہا آزادجموں وکشمیر میں 43852مقدمات زیر سماعت ہیں۔
صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹرسلطان محمود چوہدری نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ ریاست کے تین بنیادی ستون ہیں جو ریاست کے اندر Principle of Trichotomy of Powersکے تحت Mutual Check and Balance رکھتے ہیں اور ہر تین ادارہ جات کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے سے روکتے ہیں اور یہی جدید جمہوری و فلاحی ملک کی بنیاد ہے۔ جب بھی ان ادارہ جات نے کسی بھی وجہ سے اپنی حدود سے تجاوز کیا تو ریاست میں انارکی اور طوائف الملوکی پھیلی۔ فلاحی ریاست میں عدلیہ کا کام یہ ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے خاص کر جب ان حقوق کو مقننہ اور انتظامیہ کے اقدامات سے متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ بلکہ پہلے مرحلے پر مقننہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے قانون سازی کے فرائض سرانجام دے اور عدلیہ ایک دوسرے مرحلے پر انفرادی طور پر ان حقوق کے تحفظ فریضہ سرانجام دے۔انہوں نے کہا کہ ہم ریاست میں آئین، قانون اور انصاف کی بالادستی کے لیے تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں گے تاکہ عام آدمی تک اس کا ثمر پہنچ سکے۔ صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹرسلطان محمود چوہدری نے کہا کہ آزادجموں وکشمیر عدلیہ کی تاریخ شاندار فیصلوں سے مزین ہے۔ آزادجموں وکشمیر عدلیہ نے ہر دور میں عوامی مفاد کے تحت اور قانون کے بنیادی اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کیے ہیں۔ بلکہ آزادجموں وکشمیر کی عدلیہ کے ججز صاحبان کے کردار کے ریاست پاکستان کے وکلاء اور ججز شائد ہیں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم یہ شاندار تاریخ قائم رکھیں موجودہ اور آنے والے ججز صاحبان اس عظیم ورثہ کو سنبھالیں اور اس کو قائم رکھیں۔ قانون کی حکمرانی (Rule of Law)کسی بھی جدید جمہوری معاشرے کا بنیادی وصف ہے۔ اس ضمن میں بھی عدلیہ کا بنیادی کردار ہے۔ صدر نے کہا کہ جدید تقاضوں کے پیش نظر تمام جوڈیشل ریکارڈ اور کارروائی کی Automationایک بنیادی ضرورت ہے جس کی بناء پر غیر ضروری تاریخ گردانی، گواہوں کی بار بار حاضری اور تاریخ پر تاریخ جیسے اُمور کا سد باب ہو گا اور مقدمات کی Fixationمیرٹ پر ہو گی اور بلا جواز تاخیر سے اجتناب ممکن ہو سکتا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے پہلے سے ہی اس ضمن میں کارروائی شروع کر رکھی ہے اور بہت جلد ہم یہ امید کرتے ہیں کہ آزادجموں وکشمیر کی عدلیہ اس ضمن میں جملہ صوبہ جات پاکستان کی عدلیہ سے سبقت لے جائے گی۔ انصاف کی فراہمی کے لئے وکلاء کے ریفریشر کورسز کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ جدید دنیا کی Jurisprudenceسے واقف ہوں اور جدید ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کریں تاکہ وہ عدالتی کارروائی کی جدت سے ہم آہنگ ہوں اور انصاف کی فراہمی میں عدلیہ کی بھرپور معاونت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ Prosecution Service بالخصوص فوجداری Prosecutionکو بھی جدید طریقے سے بنایا جانا ضروری ہے تاکہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔میں چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ اور اُن کی جملہ ٹیم کومطلوبہ اہداف حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ریاست میں سالانہ بنیاد پر جوڈیشل کانفرنس کا انعقاد کرانے پر داد تحسین کا مستحق سمجھتا ہوں۔
چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس صداقت حسین راجہ نے جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ جب قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو اُس وقت آزاد کشمیر عدالت عالیہ میں صرف ایک میں ہی تھا کہ جو بیک وقت جج اور قائم مقام چیف جسٹس تھا اور مجھے مزید کچھ عرصہ تنہا ہی عدالت عالیہ میں بطور جج اور چیف جسٹس کام کرنا پڑا۔ صدر آزاد کشمیر کی کوششوں اور کاوشوں سے عدالت عالیہ میں جنوری ججز صاحبان کی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں۔جب موجودہ ججز صاحبان کی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں تو اس و قت عدالت عالیہ میں مقدمات کا بیک لاگ تھا۔ میرے ساتھی ججز صاحبان نے انتھک محنت کر کے اس بیک لاگ کوختم کیا اورآج میں فخر سے کہہ سکتاہوں کہ آزاد کشمیر عدالت عالیہ پرانا مقدمہ زیر کار نہیں ہے۔ گذشتہ جوڈیشل کانفرنس میں ہم نے جو ہداف مقرر کیے تھے جن میں سب سے اہم زائد از پانچ سال، فیملیMatters اور مقدمات قتل تھے۔اسی طرح ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے بھی ہماری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مقدمات کو پوری محنت سے یکسو کیا ہے اور آپ نے دیکھا ہے کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی سطح پر بھی مقدمات تیزی سے یکسو ہوئے۔اس طرح ہم نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گذشتہ سال جوڈیشل کانفرنس میں کہا تھا کہ ان شاء اللہ آئندہ سال مقدمات زیادہ سے زیادہ پانچ سال پرانے زیر سماعت نہیں ہوں گے۔Family matter کے حوالہ سے میں نے کہا تھاکہ اب کسی خاتون کے بالوں میں عدالتوں میں چاندی نہیں آئے گی اور الحمد اللہ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اب Family Matters میں کوئی مقدمہ 2021سے پہلے کا زیر سماعت نہیں ہے۔ الحمد للہ پرانے زائداز پانچ سالہ مقدمات کا فیصلہ کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے بعد زائد از چار سالہ مقدمات کا بھیDisposalکردیا گیا ہے اور آئندہ دوسالہ مقدمات کو یکسو کیا جائے گا۔اس طرح یہ Backlogمکمل کرتے ہوئے صرف Running مقدمات کی سماعت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا عدالتی نظام، قانون اور انصاف کی فراہمی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جس کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کی Credibilityکو متاثر کرتے ہیں۔ ان چیلنجز کو سمجھنا ریاست میں ایک بہتر منصفانہ اور موثر عدالتی ڈھانچے کی تشکیل کیلئے ضروری ہے۔ میں مختصرا ً ان چیلنجز کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ سب سے بڑا چیلنج مقدمات کا بوجھ ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کو زیر التواء مقدمات کی بھاری تعداد کا سامنا ہے۔یہ بوجھ ججز کی کمی اور عدالتوں میں ناکافی Infrastructure کی وجہ سے بڑھ جاتاہے اور ان مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھالنے کیلئے ججز کی محدود تعداد ماتحت عدالتوں میں موجود ہے جس بنا ء پرمقدمات کے جلد فیصلہ جات میں تاخیر ہوتی ہے اور یہ نہ صرف عدالتی مقدمات کے حل کے عمل کو طویل بناتا ہے بلکہ شہریوں کو بروقت انصاف کی فراہمی بھی ناممکن ہوجاتی ہے۔ ہم نے اس ضمن میں حکومت کومتعدد مرتبہ اینٹی ٹیرارزم کورٹ، ڈرگ کورٹس، Consumerکورٹس اور انکم ٹیکس کورٹ کے قیام کے لئے مکتوبات تحریر کیے ہیں مگر اس ضمن میں حکومت کی جانب سے تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں بد عنوانی بھی اس نظام کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے جو قانونی اداروں پر عوام کے اعتبار کو متاثر کرتی ہیں۔ بد عنوانی،متعصب فیصلوں اور طاقت کے عدم توازن کا باعث بنتی ہے۔جہاں وسائل رکھنے والے لوگ نظام کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں جس بناء پر عدل و انصاف کا نظام نہ تو غیر جانبدار نظر آتا ہے اور نہ ہی عام آدمی کیلئے قابل رسائی اور قابل قبول ہوتاہے۔ چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے کہا کہ ہمارے عدالتی نظام کو ایک چیلنج عدالتی نظام میں بااثر طبقات کی مداخلت ہے جس سے عدالتی خود مختاری شدید متاثر ہوتی ہے اور میرے خیال میں فی الوقت اس خطہ میں عدالتی نظام کو درپیش چیلنجز میں سے سب بڑا چیلنج یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے نفاذ پر عمل درآمد میں تسائل بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ عدالتی فیصلوں کے عمل درآمد میں سیاسی،انتظامی مداخلت، انتظامی ناکامیاں اور قانون نافذ کرنے کیلئے محتص محدود وسائل رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں طاقتور افراد یا طبقات عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتے ہیں۔عدالتی نظام میں سزا اور جزا کا عمل انتہائی اہم ہے بلکہ وہ کسی بھی معاشرے کا توازن برقرار رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ہمارے نظام میں صنفی تقسیم یعنیGender discriminationایک بڑا چیلنج ہے۔ خواتین کو انصاف تلاش کرنے میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں معاشرتی بدنامی، قانون کی عدم آگاہی اور عدالتی نظام میں ناکافی قانونی نمائندگی شامل ہے۔ انتقامی کارروائیوں کا خوف اور موجودہ پدر شاہی اصول اکثر خواتین کو سول اور فوجداری معاملات میں انصاف کے حصول سے روکتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف فریق خواتین کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ معاشرے کو بھی متاثر کرتی ہے جس کے بہت وسیع سماجی اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے علاوہ بھی ہمارے عدالتی نظام کو بہت سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر وقت کی قلت کے باعث سب کا احاطہ کرنا اس وقت ممکن نہیں ہے جن میں بہت سے انتہائی اہم معاملات ہیں جن کا تذکرہ میں کسی اور مناسب وقت کیلئے چھورتا ہوں۔ تاہم ان چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے نئی عدالتوں کے قیام اور بنیادی انفراسٹکچر کو بہتربنا تے ہوئے بدعنوانی، مداخلت، عدالتی فیصلوں کے نفاذ میں عدم دلچسپی کا خاتمہ، Gender discrimination جیسے مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم ایک مضبوط اور قابل اعتبار عدلیہ کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ جو تمام شہریوں کی یکساں خدمت کرتی ہے۔ جیسے جیسے یہ ریاست انصاف جو ابدہی کی کوشش کرتی ہے عدالتی نظام میں اصلاحات، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی نظام میں سزا اور جزا کا نظام انتہائی اہم عمل ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں نہ صرف توازن برقرار ہوتاہے بلکہ معاشرہ تباہ و برباد ہونے سے بھی بچ جاتاہے۔ آپ کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ اہل مقدمات /سائلین کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ سالCr.PCدفعہ491کے اختیارات ڈسٹرکٹ وسیشن ججز کے علاوہ تحصیل ہیڈکوارٹر پر موجود ایڈیشنل سیشن ججز کو تفویض کیے جانے کے علاوہ جوڈیشل آفیسران کے لوڈ آف ورک کو مدنظر رکھتے ہوئے مہتمم نقولات کے اختیارات بھی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ تحصیل قاضی صاحبان کو تفویض کردیئے گئے ہیں اور آئندہ بھی تحصیل قاضی صاحبان کو جہاں ضرورت محسوس کی جائے گی، مہتمم نقولات مقرر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آزادجموں وکشمیر میں عدالتی مکانیت کے حوالہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔گذشتہ سال کافی حد تک عدالتی مکانیت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے احسن اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں جوڈیشل کمپلیکس نلوچھی مظفرآباد آزادکشمیر کا ایک بڑا پراجیکٹ پایہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے جبکہ جوڈیشل کمپلیکس دھیرکوٹ اور حویلی (کہوٹہ) کی تعمیرات کے سلسلہ میں حکومتی منظوری کے حوالہ سے معاملہ آخری مراحل میں ہے۔عدالتی نظام، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بنیاد فراہم کرتا ہے جس کو درپیش چیلنجز کا میں نے اجمالاً ذکر کیا۔ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے وکلاء کا بھی ایک ہم کردار ہے جو قانون اور معاشرے کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے افعال صرف عدالتی نمائندگی تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ایک منصفانہ، موثر اور قابل رسائی عدالتی نظام کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔وکلاء اور عوام کو ان کے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنے میں مددد دیتے ہیں۔بہت سے افراد قانونی پیچیدگیوں سے آگاہی نہیں رکھتے۔وکلاء عوام الناس میں قانونی آگاہی کو فروغ دیتے ہیں۔میں اگر یہ کہوں کہ وکلاء انصاف تک رسائی کو فروغ دینے میں اہم ہیں۔بہت سے لوگوں کو انصاف کے حصول میں مالی مشکلات اور پیچیدہ قانونی زبان کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔وکلاء ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔قانونی اصلاحات میں وکلاء کا ایک اہم کردار ہے۔وکلاء کی مدد سے مقدمات کی تاخیر کا خاتمہ ممکن ہوا ہے۔وکلاء عدالتی نظام کے نگہبان کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔عدالتی تجربات، فریقین اور عوام سے رابطہ قوانین اور طریقوں کی خامیوں کے بارے میں قیمتی آراء اور بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ہر عدالت میں ازخود جاکر اُن کے مسائل کو دیکھ کر حل کرنے کی بھرپور سعی کی گئی ہے۔ایسے کیے گئے اقدامات کی فہرست تو بہت لمبی ہے جسے وقت کی کمی کے باعث بیان کرنا ناممکن ہے۔اسی طرح اداروں کی مضبوطی، کارگزاری کی بہتری اور عوام الناس کی آگاہی کے حوالہ سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم ہے بلکہ فی زمانہ سوشل میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہوچکا ہے۔میڈیا کا بنیادی مقصد درست معلومات عوا م الناس تک پہنچانا ہے۔غیرجانبدارانہ اور ذمہ دارانہ صحافت سے ہی معاشرہ درست سمت پر گامزن ہوسکتا ہے۔میڈیا آج کے دور میں سماجی شعور کی بیداری اور اصلاح معاشرہ کے لیے ایک انتہائی موثر ذریعہ بن چکا ہے۔میڈیا سماج کو بیدار کرنے میں نمایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔پریس معاشرے کے مختلف پہلوؤں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور عدالتی نظام پر بھی پریس کے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ایسے ملک میں جہاں عدالتی نظام کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہو وہاں پر میڈیا ایک اہم نگرانی کرنے والا ادارہ بن جاتا ہے جو کسی بھی نظام میں شفافیت، جوابدہی اور عوامی آگاہی کو فروغ دیتا ہے۔تحقیقی صحافت Investigating Journilismعدالتی نظام میں خامیوں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہو۔پریس کی آزادی ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کے لیے نہایت ضروری ہے۔جہاں عدالتی اصلاحات پھل پھول سکیں۔ ہمارے ہاں عدالتی نظام کو فروغ دینے میں پریس کا کردار انتہائی اہم اور بنیادی ہے۔نگران کی حیثیت سے عوام کی تعلیم، عدالتی کارکردگی کی نگرانی اور پریس کی آزادی عدالتی نظام میں بہتری کی ضامن ہے۔انصاف اور اصلاحات کی کوشش کرنے والی قوم کے لیے ایک مضبوط اور آزاد پریس عدلیہ کی حمایت کرنے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ شعبہ عدل وانصاف کے حوالہ درست رپورٹنگ وقت کا تقاضا ہے اور عوام الناس میں عدلیہ سے متعلق خبریں شائع کرنے سے قبل اُ ن کی صداقت کو جانچا جانا انتہائی ضروری ہے۔علاوہ ازیں فیصلہ جات کے حوالہ سے رپورٹنگ کرنے کے لیے صحافی حضرات کو متعلقہ قوانین سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے یا کم از کم اس حوالہ سے متعلقہ افراد سے معلومات ضروری حاصل کرنی چاہیے۔اس ضمن میں بھی شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نظام عدل وانصاف میں حائل رکاوٹوں کا تدارک ہوسکے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اپنے اہداف کے حصول اور دیگر تمام امور میں چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر، فاضل جج صاحبان سپریم کورٹ آزادجموں وکشمیر کی راہنمائی حاصل رہی ہے۔ چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے ہمارے کام کو ہمیشہ سراہا ہے جس سے نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے بلکہ ہمارے اندر مزید لگن اور محنت سے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔میں اپنی اور ساتھی ججز کی جانب سے اُن کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح ہماری راہنمائی کرتے رہیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک وائس چیئرمین آزدجموں وکشمیر بارکونسل کے اس مطالبہ کہ متعلقہ قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قاضی صاحبان کو عائلی مقدمات کی سماعت کے حوالہ سے اختیارات تفویض کیے جائیں، کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ایسے قاضی صاحبان جو لاء گریجویٹ ہیں، اُن کو عائلی مقدمات کی سماعت کے اختیارات تفویض کرنے کے حوالہ سے ضروری ترامیم کے حوالہ سے اقدامات کیے جارہے ہیں اور متعلقہ قانون میں ترمیم کے لیے تحریک کردی ہے۔انہوں نے کہا کہ عائلی مقدمات کے قانون میں درج مدت کے اندر انفصال کے لیے آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں علیحدہ سے فیملی کورٹس قائم ہیں تاہم بعض مقامات پر فیملی کورٹس میں Load of Work زیاد ہ ہے جس باعث متعینہ ججز فیملی کورٹس کو قانون میں درج مدت کے اندر مقدمات کی یکسوئی کے حوالہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عدالتی عملہ اور ججز کے رویے میں سختی پائی جاتی ہے تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ قانو ن و ضوابط پر عمل درآمد کو اگر سختی تصور کیا جاتا ہے تو اس ضمن میں کوئی رعایت نہ دی جاسکتی ہے، ہا ں اگر کسی جوڈیشل آفیسر یا عدالتی عملہ کی جانب سے قانوناً قابل گرفت افعال کا ارتکاب کیا جاتا ہے جو ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن رولز کے دائرہ کار میں آتے ہیں تو میں نے ایسے جوڈیشل آفیسران و عدالتی عملہ کے خلاف کارروائی کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا اور آئندہ بھی ڈسپلن شکنی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ میں نئے دائر ہونے والے مقدمات کی نوعیت، قسم اور ضروری جانچ پڑتال کے لیے الگ سے شعبہ قائم کردیا گیا ہے۔بینچز کی تشکیل کے لیے میں خود بطور چیف جسٹس مقدمات کی نوعیت کا جائزہ لے کر بینچ تشکیل دیتا ہوں۔جہاں تک ڈویژن بینچ، لارجر بینچ کے مقدمات کی سماعت کے دن اور وقت کے تعین کے مطالبہ کا تعلق ہے تو جملہ مقدمات کا Status ویب سائیٹ پر چیک کیا جاسکتا ہے۔عموماً ڈویژن بینچ اور لارجر بینچ والے مقدمات میں تاریخ بینچ کی دستیابی کے تناظر میں ہی مقرر کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جوڈیشل آفیسران کو بھی وقتاً فوقتاً ٹریننگ کے لیے فیڈرل جوڈیشل اکیڈیمی اسلام آباد میں منعقد ہونے والے کورسز میں شمولیت کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں عدالتی عملہ کو بھی ٹریننگ کے لیے مامور کیا جاتا ہے۔سال2024کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ سے عدالت عالیہ اسٹیبلشمنٹ کے آفیسران واہلکاران کے لیے خصوصی ٹریننگ کورس شیڈول کروایا جاکر آفیسران و اہلکاران عدالت عالیہ اسٹیبلشمنٹ کو ٹریننگ دلوائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ صدرسپریم کورٹ وہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کی جانب سے سپیشل کورٹس کے قیام کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے سپیشل کورٹس کے قیام کا مطالبہ کیا گیا، میں سپیشل کورٹس کے قیام کے موقف سے اتفاق کرتا ہوں اور یہ بھی واضح کرنا چاہتاہوں کہ عدالت عالیہ سے سپیشل کورٹس کے قیام کے حوالہ سے حکومت کومسلسل تحاریک کی جاتی رہی ہیں لیکن تاحال مطلوبہ سپیشل کورٹس کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا تاہم اس بابت چیف سیکرٹری آزادکشمیر نے یقین دہانی کروائی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس پر بہت جلد عمل درآمد ہوگا۔سیکرٹری قانون نے سپیشل کورٹس کے قیام کے حوالہ سے معاملہ حکومتی سطح پر زیرکار ہونے کی نشاندہی کی ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں حکومت کی جانب سے سپیشل کورٹس قائم کردی جائیں گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بطورچیف جسٹس عدالت عالیہ سالانہ جوڈیشل کانفرنس سے میرا آخری خطاب ہے۔میں یہاں یہ بات کرنا چاہوں گا کہ افراد ریٹائرہوتے ہیں۔ادارے ریٹائرنہیں ہوتے۔اس طرح عدالت عالیہ میں کی گئی اصلاحات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ اصلاحات ان شاء اللہ اضافہ کے ساتھ جاری رہیں گی۔اس طرح ایک جج کا اور چیف جسٹس کا منصب بھی مشکل کام ہوتا ہے۔آج شعبہ قانون سے مسلک ہوئے تقریباً 34سال ہوچکے ہیں جن میں سے 9سال بطور جج عدالت عالیہ بھی مکمل ہورہے ہیں۔اس عرصہ میں اپنے تلخ اور شیریں تجربات کو بھی وکلاء صاحبان آپ سے کبھی شیئر کروں گا۔
جج عدالت عالیہ جسٹس میاں عارف حسین نے جوڈیشل کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرد کی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے ریاست ایک دستور کے تابع بنیادی Structure کو قائم کرتے ہوئے قانون سازی کے ذریعہ مختلف اداروں کی تشکیل کرتی ہے اور پھر حکومت اور یہ ادارہ جات دستور کے تابع مختلف قوانین و قواعد کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور اُس ریاست کو کامیاب اور Welfare State کہا جاتا ہے جس کے جملہ ادارے اپنے فرائض کو احسن طریقہ سے ادا کرتے ہوئے معاشرہ میں بسنے والے افراد کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یوں تو معاشرتی زندگی کی بیان کردہ ضروریات کی تکمیل میں ہر ادارہ کا رول انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور کسی بھی فرد اور کسی ادارہ کے کردار یا رول کو کم اہم نہ سمجھا جاسکتا ہے لیکن میری نظر میں معاشرہ کو اوج کمال تک پہنچانے میں دو طبقات کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ ایک طبقہ معلمین کا ہے اور دوسرا منصب عدل پر فائز وفروکش افراد کا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدل وانصاف کے مفہوم سے ہم کبھی آشنا ہیں۔ میری نظر میں عدل وانصاف کی فراہمی کے مقدس فریضہ کو صرف عدالتوں کے ساتھ ہی منسلک نہ کیا جا سکتا ہے بلکہ معاشرہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے انفرادی و اجتماعی امور میں انصاف کے اصولوں پر کار بند رہے۔ اپنے حقوق کے تقاضا کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض سے بھی آگاہ ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم حقوق کے حصول کے لیے تو زور دار طریقہ سے آواز بلند کرتے ہیں لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی سے روگردانی کرتے ہیں اور یہ کیفیت نا انصافی کوجنم دیتی ہے۔ بحیثیت فرد ہم اپنی ذاتی نجی، عائلی اور معاشرتی زندگی میں موجود خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات نمایاں دکھائی دیتی ہے کہ ہم بے پناہ نا انصافیوں کے مرتکب ہور ہے ہوتے ہیں جس سے معاشرہ میں unrest کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اگر ان نا انصافیوں کا بر وقت ازالہ نہ کیا جائے تو معاشرتی زندگی میں بدامنی اور انارکی کی کیفیت پیداہو جاتی ہے۔ نتیجتاََ معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے اور زندگی کا اعلیٰ وارفع مقصد حاصل نہ ہو پاتا ہے۔ فرد کے ساتھ ہر ادارہ میں موجود افسران اور ملازمین اگر اپنے فرائض قانون و قواعد کے مطابق سرانجام دیں تو یقینا یہ امر بھی انصاف فراہمی کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے اندر بسنے والے لوگوں کے جان و مال، عزت و آبرو اور دیگر جملہ حقوق کے تحفظ کے لیے جہاں دیگر ادارہ جات اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں وہاں ریاست لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ اور عقائد کو نقصان پہنچانے والے افراد کے مواخذہ کے لیے عدالتیں قائم کرتی ہے۔ ہماری آزادریاست کے اندر بھی ایک مربوط عدالتی نظام موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک(Administation of Justice )(عدل گستری) کے مروجہ نظام میں صرف عدالت ہی نہیں دیگر Stake Holders کا رول بھی اہمیت کا حامل ہے جن میں مقننہ، پولیس، انتظامیہ، بارایسوی ایشنز، جیلز (Jails) اور Litigants وغیرہ شامل ہیں اور ان جملہ Stake Holders کے فرائض اور Assignments اور رول کی نوعیت کو جانچا جائے تو یہ بھی ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح میرے نزد یک عدل گستری اور عدالتی انصاف کی فراہمی کے عمل میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور اُن کے ازالہ کے حوالہ سے جملہ بیان کردہ Stake Holders کے رول (Role) اور کارگزاری کو زیر بحث لائے جانے کے بعد ہی کسی حتمی نتیجہ کی جانب پیش قدمی ممکن ہو سکتی ہے لیکن آج کی اس نشست میں جملہ Stake Holders کو ہدف تنقید بنانا ہرگز میرا موضوع نہیں ہے تا ہم اس موقع پر صدر ریاست کی یہاں Kind Presence کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اختصار کے ساتھ اور روایتی گفتگو سے ہٹ کر چند ایک کڑوی کسیلی باتیں شیئر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر پیش نظر رہے کہ کسی بھی ادارہ، شعبہ کی کارگزاری اور Performance کا انحصار اُس شعبہ میں مامور افراد پر منحصرہوتا ہے۔ ان افراد میں پولیس آفیشلز ہوں، ججز ہوں، معزز وکلاء ہوں یا دیگر شعبہ جات سے متعلق آفیسران وملاز مین ہوں میری نظر میں اگران افراد کی تعیناتی میرٹ کے نقیص ہو اور یہ افراد اپنے کام میں مہارت نہ رکھتے ہوں اور ان میں احساس ذمہ داری کا فقدان ہو تو ایسی صورت میں وہ ادارہ یا شعبہ کبھی بھی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی ادارہ کی بہتر Performance کا انحصار، ڈسپلن اور نظم و ضبط کے ساتھ وابستہ نہیں جس ادارہ میں ڈسپلن اور نظم کا فقدان ہوگا۔ وہ ادارہ کبھی بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر پاتا ہے۔میں نے اپنی ملازمت کی ابتداء بطور سیکشن آفیسر محکمہ قانون سے کی، مجھے سیکرٹریٹ میں کام کرنے کا موقع ملا اور پھر سال 2001 کے وسط سے اب تک جوڈیشل Capacity میں کام کررہا ہوں اور اب اسی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر الحمد للہ! میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاؤں گا۔میں نے اپنے متذکرہ کم و بیش 28 سال کے اس عرصہ میں جس چیز کو شدت سے محسوس کیا ہے وہ ہمارے اداروں میں ڈسپلن کا فقدان ہے۔ کسی بھی ادارہ میں کسی آفیسر یا ملازم کی میرٹ کے مطابق تقرری قانون کا بنیادی تقاضہ ہے۔ لیکن یہ امر میرے مشاہدہ میں رہا ہے کہ ادارہ جات کے اندر چھوٹے سکیل کی تقرریوں کے حوالہ سے کبھی میرٹ کی پاسداری نہ کی گئی ہے بلکہ پبلک سروس کمیشن جیسا ادارہ بھی مصلحت کا شکار رہا ہے گویا تقرری کے معاملہ میں ہر سر براہ ادارہ نے خویش پروری، سفارش، تحریص و لالچ سے الگ ہو کر تقرری کرنا مناسب نہیں سمجھا۔انہوں نے کہا کہ پبلک سروس کمیشن اور محکمہ تعلیم میں NTS کے ذریعہ متعدد تقرریاں میرٹ پر ہونے کے باعث عوام میں اطمینان پایا جاتا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ تا ہم اس جانب مزید توجہ کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میرٹ پر تقرری نہ ہونے کا لازمی نتیجہ Non Professionalism کی صورت میں سامنے آتا ہے اور ایسا آفیسر اور ملازم جس کی تقرری میرٹ پر نہ ہو وہ نہ تو اپنے کام میں مہارت رکھتا ہے اور نہ ہی ٹریننگ و کو چنگ کے ذریعہ اس سے بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے نیز ایسے شخص سے احساس ذمہ داری اور نظم وضبط جیسے اصول وضوابط کی توقع رکھنا بھی عبث ٹھہرتا ہے۔بلاشہ رواداری، عفو و درگز اور معاف کرنا، اچھے اوصاف ہیں اور ایسے اوصاف کے حامل انسان کی ستائش کی جاتی ہے۔ یہ رواداری عفو و درگز ر انسان کے ذاتی ونجی امور سے متعلق ہوتی ہے لیکن اگر یہ رواداری قانون وقواعد اور دفتری امور اور ڈسپلن کو Frustrate کرنے کا باعث بنے تو میری نظر میں اس نوعیت کی رواداری کو پروموٹ کرنے والا شخص، آفیسر یا ملازم، اس ادارے کے نظم اور ڈسپلن کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔ جس کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈسپلن کی پابندی کرنے والے افراد میں مایوسی بڑھ جاتی ہے جو یقینا ان کی کارکردگی کو بھی متاثر کرنے کا باعث بنتی ہے اورتاریخ عالم میں قوموں کے زوال کے اسباب پر اگر نظر دوڑائی جائے تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اُن اسباب میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ غیر مستحق افراد کو اہم ذمہ دار یوں پر بٹھانا، خویش پروری، نا اہلیت اور نظم وضبط کا فقدان نمایاں اسباب رہے ہیں۔مجھ اپنے ملازمتی عرصہ کے دوران دفتری و عدالتی امور میں ہمیشہ دفتری نظم ونسق، وقت کی پابندی جیسے معاملات میں اپنے سٹاف سے شکوہ رہا جس پر بسا اوقات مجھے سختی بھی کرنا پڑی اور نتیجہ کے طور پر میرے اس عمل سے دفتری و عدالتی سٹا ف مجھ سے ناخوش رہا لیکن الحمد اللہ مجھے جو بات نا پسند تھی اس پر کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر میں اپنار و عمل ضرور د یتا تھا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے گھر کے چھوٹے یونٹ سے لے کر بڑے ادارہ جات تک یا مجموعی معاشرتی ڈھانچہ کا جائزہ لیں تو ہر جگہ آپ کو ڈسپلن کا فقدان نظر آئے گا اور وقت کی پابندی اب ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ گو یا وقت کی بے قدری عروج پر دکھائی دیتی ہے۔میں نے اپنے طویل عدالتی Carrier میں جس امر کو شدت سے محسوس کیا ہے وہ اپنے شعبہ یا کام میں مکمل مہارت و دسترس نہ ہونا اور نہ ہی بہتری کی کوشش کرنا ہے۔ قانون کی ڈگری یقینا شعبہ وکالت، عدالت یا پراسیکیوشن وغیرہ کے لیے بنیادی شرط و ضرورت ہے لیکن متذکرہ ڈگری کے بعد عملی زندگی میں اس حاصل کردہ علم کو بروئے کار لانے کے لیے یقینا مزید راہنمائی درکار ہوتی ہے اور متذکرہ راہنمائی نہ ہونے کے باعث، ہم کسی بھی Assignment کو اس کے تقاضوں کے مطابق پا یہ تکمیل تک نہ پہنچاپاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک اور ضروری پہلو کی نشاندہی ضروری دکھائی دیتی ہے کہ شعبہ عدل وانصاف سے وابستہ جملہ اشخاص Stake Holders اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ فوجداری مقدمہ کی ابتداء FIR اور بعد از تفتیش چالان رپورٹ کے ادخال یا Non Cognizable offencesمیں complaint یا پھر Private Complaint کی دائری ہوتی ہے۔ اسی طرح دیوانی مقدمات میں دعوی / Plaint کی دائری یا Petition Writ اور سروساپیلز وغیرہ کی دائری کی صورت میں آغاز ہوتا ہے اور متذکر و مقدمات کی دائری کے وقت اگر سچائی پر مبنی واقعات سے اپنے مقدمے کا آغاز کیا جائے تو میری نظر میں اس مقدمہ میں متاثرین مستحقین کی دادرسی کے امکانات نمایاں ہوتے ہیں لیکن جب ابتدائی کہانی میں ہی جھوٹ کی آمیزش کردی جائے تو پھر معزز وکلاء بخوبی جانتے ہیں کہ اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے مزید کس قدر جھوٹ پر مبنی کہانیاں تشکیل دینا پڑتی ہیں اور Ultimately یہ جھوٹی کہانی اور جھوٹی دستاویزات، متاثرہ شخص کے سارے مقدمہ کو مشکوک بنادیتی ہیں جس کے نتائج فریق مخالف کی Favour میں چلے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلا شبہ عدالت کا کام جھوٹ میں سے سچ کو تلاش کرنا ہوتا ہے لیکن اگر جھوٹ کی آمیزش ضروری مقدار سے بڑھ جائے تو پھر عدالت کا امتحان شروع ہو جاتا ہے جیسے کسی Jurist نے کیا خوب کہا کہ فریقین اور وکلاء تو سب جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے یہ تو عدالت ہے جو ٹرائل پر ہوتی ہے۔ اب تو صورت حال اس قدر بگڑتی چلی جارہی ہے کہ لوگوں کے معاشرتی رویوں اور ہمارے پیچیدہ تفتیشی و عدالتی عمل کے باعث سچے گواہ نا پید ہوتے جارہے ہیں۔ جھوٹ تو بہر صورت جھوٹ ہے لیکن یہاں اب اللہ تعالی کو گواہ بنا کر دھڑلے کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے اور متذکرہ رجحان ہمارے معاشرتی بگاڑ کی عکاسی کرتا ہے۔ پنچائیت میں بیٹھے کسی شخص نے کہا کہ یار یہاں تو جھوٹ نہ بولو یہ کوئی عدالت تھوڑی ہے۔ گویا عدالتوں میں جھوٹ بولنے کو لازمی تقاضا سمجھ لیا گیا ہے اور یہ امر انتہائی توجہ کا متقاضی ہے۔ اس حوالہ سے ہمیں Litigants کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ من حیث القوم جھوٹ کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے موثر مہم Launch کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ فوجداری مقدمہ کی Fate کا انحصار عموماً اس مقدمہ میں پیش کی جانے والی شہادت پر ہوتا ہے۔ اگر گواہان واقعات مدمہ کی تائید نہ کر پائیں تو ملزمان نے قانونابری ہونا ہوتا ہے لیکن اس حوالہ سے یہ دیکھا گیا ہے کہ عموماتفتیشی ایجنسی Publically یہ تاثر دیتی ہے کہ انہوں نے تو مقدمہ بنایا تھا۔ شہادت بھی پیش کی لیکن عدالت نے ملزم ملزمان کو چھوڑ دیا ہے جس باعث سادہ لوح لوگ قانون اور عدالتی طریقہ کارسے عدم واقفیت کے باعث عدالتوں پر انگشت نمائی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں شعبہ پولیس کے سربراہان کی توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک SHO یا متعلقہ پولیس آفیسر کو مقدمہ کے اندراج کے وقت صحیح حقائق پر مقدمہ کا اندراج کرنا چاہیے اور تفتیش کے عمل کو انتہائی صاف و شفاف انداز سے سرانجام دینا چاہیے۔ مقدمہ کے اندراج اور تفتیش کے عمل میں عدالت کا کوئی کردار نہ ہوتا ہے یہ Sole prerogative،SHO یامتعلقہ تفتیشی ایجنسی کا ہوتا ہے۔ اس لیے میرے نزد یک احساس ذمہ داری اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ شعبہ تفتیش کو جدید خطوط پر موثر بنانے کی ضرورت ہے۔فوجداری قانون کو رائج ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب ہم اکیسویں صدی کے ربع کی تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آج کا ملزم جدید ٹیکنالوجی سے بخوبی آشنا ہے اور وہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائبر کرائم کا ارتکاب بڑی مہارت سے کرتا ہے۔ آئے روز ہم آن لائن فراڈ، بینکنگ فراڈ، Data Hacking مختلف نوعیت کی انعامی سکیموں کے اجراء اور سوشل میڈیا کے ذریعہ معصوم لوگوں خصوصا خواتین کو Black Mail کرنے جیسے جرائم اور دیگر وائٹ کالر کرائمر کا تذکرہ سنتے رہتے ہیں اور یہ جرائم ہماری معاشرتی اقدار کو کھوکھلا کرتے چلے جارہے ہیں۔ بلاشبہ ان جرائم کے مرتکب افراد ملزمان اپنے شعبہ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں جنہیں زیر مواخذہ لانا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن نا ممکن ہرگز نہیں۔ میری نظر میں Devices کے استعمال سے ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو زیر مواخذہ لایا جا سکتا ہے۔ اگر چہ اس جانب محکمہ پولیس تفتیشی ایجنسی وغیرہ پیش قدمی کر رہی ہیں لیکن اس کام میں مزید مہارت لانے کیلئے پولیس آفیشلز کی خصوصی ٹریننگ و تربیت بے حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ بلا شبہ کسی ریاست کے جوڈیشل سسٹم کو سب سے زیادہ خطرہ، اخلاقی اعتبار سے انتہائی کمزور، بزدل، قانون سے نابلد، لاعلم اور مصلحت کا شکار ہونے والے حجز سے ہوتا ہے لیکنمیں اپنے طویل عدالتی تجربہ ومشاہدہ کی بنیاد پر یہ بات انتہائی دیانتداری سے کررہاہوں کہ آزادکشمیر کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں موجود ججزو قاضی صاحبان کی غالب اکثریت Competent اور دیانتدار آفیسران پرمشتمل ہے۔ جواپنے فرائض منصبی نامساعد حالات کے باوصف انتہائی پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے مقرر کردہ اہداف کے حصول میں اپنی بھر پور سعی وکاوش کی ہے جس کے لیے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے جملہ حجز و قاضی صاحبان مبارک بادو تحسین کے مستحق ہیں تاہم ڈسپین کے امور میں اصلاح کی گنجائش موجود دکھائی دیتی ہے جس پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ با ر ایسوسی ایشنز اور وکلاء کمیونٹی کا رول انصاف کی فراہمی میں کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ بار اور پیچ، بنیادی طور پر ایک ہی Purpose کو Serve کر رہے ہوتے ہیں۔ گویاوکلاء کی معاونت اور تعاون کے بغیر عدل گستری(Administration of Justice) خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان، بالخصوص صوبہ پنجاب میں عدلیہ بحالی وکلاء تحریک کے بعد چند مخصوص گروہوں نے عدالتی نظام کو یرغمال بنانے کی کوشش کی اور نوبت دھونس، دھاندلیوں اور عدالتی تالہ بندی تک بھی پہنچی لیکن مقام شکر ہے کہ آزادریاست میں اس تحریک کے منفی اثرات مرتب نہ ہوئے اور وکلاء کمیونٹی نے انتہائی دانشمندی اور فہم و ادراک کے ساتھ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو انصاف کی فراہمی کے عمل کے ساتھ مربوط طریقہ سے جوڑے رکھا۔ الحمد للہ: آزاد کشمیر بھر میں جملہ بار ایسوسی ایشنز میں Professionalism پایا جاتا ہے اور وکلاء کمیونٹی انصاف کی فراہمی کے عمل میں عدالتوں کے ساتھ تعاون برقرار رکھے ہوئے ہے، جس کے لیے میں اپنی طرف سے، چیف جسٹس عدالت عالیہ اور معزز حجز عدالت عالیہ کی طرف سے وکلاء کمیونٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں تاہم ایک آدھ جملہ کہنے کی اجازت دیجیے۔ میرے نزدیک ایک اچھے وکیل کی خوبی یہ ہے کہ اسے اپنے کام میں مکمل مہارت حاصل ہو اور عدالتی عمل کوالتواء میں ڈالنے کے لیے کبھی بھی لیت و لعل سے کام نہ لے۔ اس ضمن میں اگر سینئرقانون دان، اپنے جونیئر ساتھیوں کی وقتافوقتا مختلف نشتوں کا انعقاد کرتے ہوئے راہنمائی کرتے رہا کریں تو یہ شعبہ وکالت کی بڑی خدمت ہوگی اور یقینا تربیت و ٹرینگ سے مثبت نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کرنا بھی مناسب خیال کرتا ہوں کہ معز وکلاء کا ایک سیکشن یا پھرچند معزز وکلاء عدالت عالیہ میں سختی برتے جانے کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں میرے نزدیک جس امر کو سختی سمجھتے ہیں وہ ڈسپلن اور عدالتی کام میں معاونت کے تناظر میں فاضل حجز کی پیشہ ورانہ کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ جس ادارہ میں ڈسپلن نہ ہو، بر وقت کام کو سلیقہ کے ساتھ نمٹانے کی صلاحیت نہ ہو وہ ادارہ اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے اس لئے ہماری جانب سے تاریخ اور التواء سے انکار کو یہ ہرگز سختی سے تعبیر نہ کیا جائے۔ بلکہ غیر ضروری تاریخ گردانی اور مقدمات کے التواء کے پیش عدالت و حجز کے ساتھ فراغ دلی سے تعاون کیا جانا چاہیے جس کی ہم آپ سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ کی جانب سے سالانہ جوڈیشل کا نفرنس کا بنیادی مقصد گزشتہ سال کی عدالتی کارگزاری اور Performance کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف تجاویز کے تناظر میں آئندہ کے لائحہ عمل پر عملدرآمد کے لیے کمر بستہ ہونا ہوتا ہے۔آج کی اس نشست میں ڈسٹرکٹ جوڈیشری اور عدالت عالیہ کی ایک سال کی کارگزاری کی جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ میرے نزدیک انتہائی حوصلہ افزاء ہے۔مجھے ان بیان کردہ Figures” کے حوالہ سے چند جملے کہنے کی اجازت دیجیے۔ آج سے تین سال قبل میں اور میرے فاضل حجز عدالت عالیہ میں Elevate ہوئے تو حلف کی تقریب کے بعد سب سے پہلی باقاعدہ نشست میں ہی چیف جسٹس نے انتہائی محبت اور خلوص کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے پرانے مقدمات جو دھائیوں سے اپنی Disposal کے منتظر تھے، پر ہماری رائے دریافت کی اور یہ عندیہ دیا کہ ” زائد از پانچ سال کے مقدمات کا Bulk دائری کے اعتبار سے سال 2019 تک ہے اور سال 2020 سال 2021 میں تو کوئی کیس ہی دائر نہیں ہوا اور یہ مژدہ سنایا گیا کہ بس ایک سال زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے اور ہمارے پاس روٹین کا کام ہوگا۔ چیف جسٹس کی خوش کن گفتگو نے ہم سب کو بے حد متاثر کیا اور ہم نے اپنی کمٹمنٹ ظاہر کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر عزم صمیم کا اظہار کیا اور پھر ہم اپنے کام میں جت گئے۔۔انہوں نے کہا کہ الحمد اللہ! ہمیں اس تین سال کے عرصہ میں پرانے مقدمات کی Disposal میں چیف جسٹس عدالت عالیہ کی کمال رہنمائی حاصل رہی اور اگر آج ہم اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کا بنیادی کریڈٹ چیف جسٹس عدالت عالیہ کو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر، ریاست کی سب سے بڑی عدالت ہے جس کے فیصلہ جات پوری ریاست کی عدلیہ اور جملہ ادارہ جات اور قانون سے وابستہ افراد کیلئے رہنمائی کا باعث ہوتے ہیں اور Binding حیثیت کے حوالہ سے ان پر عمل درآمد آئینی و قانونی اعتبار سے لازم ٹھہرتا ہے انتیجاً مقدمات کی درست خطوط پر Disposal ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اپنے ادارہ اور کارگزاری کے حوالہ سے حاصل کلام یہ ہے کہ کیا ہمارا موجودہ عدالتی نظام اپنے مقصد کے حصول کی جانب کامیابی سے پیش قدمی کر رہا ہے یا نہیں کہ میرے خیال میں اس بات کا جواب Litigants کے عدالتوں پر اعتماد میں مضمر ہے۔ اگر عوام الناس /Litigants اپنے حقوق کے تحفظ اور انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں توپھر کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ اس عدل گستری کے موجودہ عمل سے نالاں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر میں چیف جسٹس عدالت عالیہ اور ساتھی ججز صاحبان کی طرف سے صدر ریاست آزاد جموں وکشمیر آپ کا میں صمیم قلب سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے جوڈیشل کانفرنس میں شرکت کر کے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور دیگر جملہ قابل احترام شرکاء کا نفرنس کا بھی تہہ دل سے اس تقریب میں شرکت پر ممنون ہوں۔
ایڈووکیٹ جنرل آزادجموں وکشمیر شیخ مسعود اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ فراہمی انصاف کے لیے ہم سب کو مل کرکام کرنا ہے۔ عدالت العالیہ نے گزشتہ سالوں میں ریکارڈ مقدمات یکسو کیے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی،انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہمیں مل جل کر کام کرنا ہے۔ انصاف کی فراہمی نہ صرف عدلیہ بلکہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی اپنی سطح پر انصاف کی فراہمی کے لیے کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ظلم کے خاتمہ اور انصاف کی فراہمی میں وکلاء کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ غیرضروری مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔آزادکشمیر کی عدلیہ کے فیصلہ بطور مثال پاکستان میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ ہماری عدلیہ کی شاندار تاریخ ہے۔عدلیہ اور انتظامیہ کو مل کر انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنا ہے۔
سیکرٹری قانون،انصاف،پارلیمانی امور وانسانی حقوق وحید الحسن شاہد نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جس کے بغیر ریاست کا قیام ممکن نہیں۔ آزادکشمیر میں قوانین کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ موجود ہے۔ قوانین میں جہاں ضروری سمجھا جاتا ہے ترامیم کی جا تی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر میں عدل وانصاف کا بہترین نظام قائم ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے سپریم کورٹ،ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کی آٹومیشن کر دی ہے۔ مکانیت کے مسئلہ کے حل کے لیے حکومت نے ڈسٹرکٹ جوڈیشنل کمپلیکس کی عمارت کاکام مکمل کر لیا ہے۔عدالتوں کی معاونت کے لیے لا آفیسران، لیگل ایڈوائزر اور پبلک پراسیکوٹر تعینات کیے گے ہیں۔ حکومت عدلیہ کو مزید وسائل فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ نظام کی بہتری کے لیے قوانین میں بھی تواتر کے ساتھ ترامیم کی جاتی ہیں۔
وائس چیئرمین بار کونسل سید اشفاق حسین کاظمی ایڈووکیٹ نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نظام انصاف میں بہتری کی ضرورت ہے جس کے لیے بار اور بینچ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ججز کی تعداد میں کمی اور قوانین میں سقم کیوجہ سے ہوتا ہے۔ ہمیں خرابی کی جڑ تک جانا ہوگا تاکہ مقدمات کے بروقت فیصلے ہوسکیں اور لوگوں کو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں اصلاحات، آن لائن کاذ لسٹ کا اجرا، اور ڈسٹرکٹ جوڈیشنل کمپلکس کی عمارت کی تعمیر عدالت العالیہ کے بہترین کارنامے ہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جاوید نجم الثاقب ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس جوڈیشل کانفرنس سے ہمیں مل کر عدالتی نظام کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا موقع ملا جس سے آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جو خوش آئند
ہے۔تا ہم بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ انصاف کی فراہمی معاشرے کی بنیاد اور اسکی بروقت دستیابی معاشرتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے ججز اور وکلاء کی تربیت ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال اور قوانین میں مناسب ترامیم کر کے ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن خالد بشیر مغل نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی میں آزادکشمیر کی عدلیہ کی تاریخ مثالی ہے۔ بار اور بینچ کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ انصاف ہی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے اور عدلیہ اسکی ضامن ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسوقت فروقت انصاف کی فراہمی کے لیے قوانین میں ترامیم ناگزیر ہیں۔ عدالتی عملے اور ڈھانچہ میں اضافہ اور وکلاء کی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔ عدالت العالیہ نے گزشتہ چار سالوں میں بروقت اور تاریخی فیصلے کیے ہیں۔
رجسٹرار عدالت العالیہ چوہدری محمد فیاض نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ عدالتی ضروریات میں بھی تبدیلی ہوتی ہے۔ مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس کانفرنس کا عنوان ”فراہمی انصاف، جدید تقاضے اور مشکلات“ رکھا گیا ہے تاکہ نئے رحجانات کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے چیف جسٹس عدالت العالیہ کی ہدایت ہر کیس فلو مینجمنٹ سسٹم اور رجسٹریشن آف ڈیڈ مینجمنٹ سسٹم رائج کر دیا ہے جس سے عدالتی نظام میں بہتری آئے گی۔ عدالتی نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے وسائل درکار ہیں۔