دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
17 صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج ،راجہ جلیل عمر نے تحریر کیا دوران تفتیش میجر نقائص چھوڑنے پر ایس پی باغ کو آفیسر موصوف کیخلاف سخت انضباطی کارروائی کرنے کا حکم
دھیرکوٹ( راجہ طاہر اسلم )۔ ایڈیشنل ضلعی فوجداری عدالت دھیرکوٹ نے جرم 302 کے الزام سے ملزم محمد سرور کو ناکافی ثبوتوں کے باعث شک کا فائدہ دیتے ہوئے کیس سے بری کر دیا۔ 17 صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج ،راجہ جلیل عمر نے تحریر کیا۔
ملزم کیجانب سے سردار رضوان نعیم ایڈووکیٹ نے ڈیفنس کیا جبکہ مستغیث کیجانب سے راجہ سہراب احمد ایڈووکیٹ نے پیروی کی۔ تفصیلی فیصلہ میں عدالت نے بذیل نقائص کی بنیاد پر ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
1۔ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے بارہ بور بندوق سے شبیر کو زخمی کر دیا جس پر ابتدا میں ملزم کیخلاف جرائم 337/324 اے پی سی میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی لیکن شبیر کے ابتدائی زخم کی نسبت فارم مضروبی ہی ریکارڈ پر موجود نہ ہے۔ جوکہ زخم کی قسم اور نوعیت کے لیے اور ازاں بعد موت کے تعین کے لیے اہم بنیادی ثبوت تھا، جس پر ہی کیس بلٹ ہونا تھا۔
عدالت نے یہ قرار دیا کہ عام حالات میں معمولی زخم یا جھگڑے کے کیس میں بھی مضروب کی ابتدائی ڈاکٹری رائے پولیس لیتی ہے لیکن 302 جیسے اس اہم نوعیت کے کیس میں ابتدائی میڈیکل ریکارڈ کی عدم موجودگی کے باعث عدالت کے لیے یہ طےکرنا ناممکن ہے کہ شبیر کو زخم پہنچا تھا یا نہیں اور اگر پہنچا تھا تو اسکی نوعیت کیا تھی؟
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
2۔ مقدمہ میں دوسرا اہم ثبوت مرنے والے شبیر کے بروز وقوعہ زیب تن کپڑے ہوسکتے تھے۔ لیکن حیران کن طور پر مقدمہ میں کپڑوں کی ضبطی ہی نہیں کی گی۔
چونکہ ایف آئی آر کی کہانی کے مطابق ملزم سرور پر بارہ بور بندوق سے شبیر کو فائر کر کے زخمی کرنے کا الزام ہے تو ایسی صورت میں شبیر نے جو کپڑے پہنے تھے ان پر گولی یا چھروں کے نشانات، متعلقہ جگہ سے کپڑوں کے پھٹنے یا ان کپڑوں پر شبیر کے خون کے تعین کے لیے اور پھران کپڑوں پر لگے خون اور مٹی خون آلودکی بذریعہ فارنزک میچنگ کےلئے کپڑوں کی ضبطی انتہائی اہم تھی۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
3۔ کہانی استغاثہ کے مطابق شبیر سی ایم ایچ مظفراباد اور پھر پمز اسلام آباد میں دو ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد مرا لیکن حیران کن طور پر متذکرہ ہسپتالوں میں زیر علاج ہونے کی نسبت میڈیکل ہسٹری بھی دوران تفتیش نہ تو مستعیث نے پولیس کو پیش کی اور نہ ہی تفتیشی آفیسر نے یہ ریکارڈ مستغیث سے طلب کرتے ہوئے شامل چالان کرنے کی زحمت گوارہ کی۔
حتی کہ شبیر کی وفات کے دو ماہ بعد چالان عدالت میں دائر ہوا لیکن اس عرصہ میں بھی میڈیکل ریکارڈ تفتیش کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ یہاں تک جس ہسپتال میں شبیر کی وفات ہونا بیان ہوا اس ہسپتال کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ بھی ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
4۔ ایف آئی آر میں وقوعہ کے چشم دید گواہان شوکت اور نصیر کوظاہر کیا گیا، لیکن ہر دو گواہان دوران شہادت مبینہ جائے وقوعہ پر اپنی عدم موجودگی اور اپنی آنکھوں سے وقوعہ نہ دیکھنے کا اظہار کرتے ہیں۔
حتی کہ اس کیس کے دیگر گواہان جن میں امام مسجد، مرنے والے کا بیٹا اور پوتے سمیت دیگر امر واقع کے گواہان سے بھی کسی گواہ نے اپنے بیانات میں مقتول شبیر کے پیٹ پر گولی لگنے یا پیٹ سے خون بہنے کی نسبت ایک لفظ تک نہیں کہا، صرف یہ کہا کہ زخمی دیکھا۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
ان گواہان کے بیانات اس نسبت خاموش ہیں کہ انھوں نے شبیر کے جسم کے کس حصہ پر زخم دیکھا یا کس حصہ سے خون بہتے دیکھا تھا۔ بھی مکمل
5۔اس پورے کیس میں واحد دستاویز پوسٹ مارٹم رپورٹ تھی جسمیں 3.4 سنٹی میٹر نشان زخم کا ذکر ہے جسکی نسبت ڈاکٹر حناء اپنے عدالتی بیان میں کہتی ہے کہ ایسا زخم محض خراش کو ظاہر کرتاہے جو چمڑے کے باہر تک محدود ہوتا ہے چمڑے کے اندرونی حصہ تک نہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر یہ بھی کہتی ہے کہ ڈیڈ باڈی کی پوسٹ مارٹم سے پہلے یعنی جب وہ زخمی تھا اس نے معائنہ نہیں کیا تھا۔ اب جب شبیر کی ابتدائی مضروبی رپورٹ ہی نہیں بنائی گی تو عدالت کے لیے اس کا تعین کرنا ممکن نہ ہے کہ واقعی شبیر کی موت کسی زخم کی وجہ سے ہی ہوئی یا کسی اور وجہ سے؟۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
6۔ ایف آئی آر 30 اگست 2021 کو جرائم 337/324 میں درج ہوئی، جبکہ موت 23 اکتوبر یعنی تقریبادو ماہ بعد ہوئی اور چالان عدالت میں 21 دسمبر یعنی وقوعہ کے چار ماہ بعد اور شبیر کی وفات کے تقریبا دو ماہ بعد دائر ہوا۔ اس طویل عرصہ میں بھی مستیغث مقدمہ یا مرحوم شبیر کے بیٹے یا دیگر وارث نے پولیس کو جملہ شواہد کیوں نہیں دیئے؟ اس کیس میں مٹی خون آلود اور بندوق وغیرہ بھی 15 نومبر 2021 یعنی ضبطی کے تقریبا ساڑھے تین ماہ بعد فارنزک کےلیے لاہور بھیجے گے۔
7۔ کہانی استغاثہ کے مطابق مقتول کے تین اپرشن ہوئے اگرچہ اس نسبت کوئی ثبوت ریکارڈ پر استغاثہ نے نہیں لایا، اسکے باوجود اگر یہ فرض کر لیا جاے کہ شبیر کے تین آپریشن ہوئے تھے تو پھر لامحالہ جسم کے اندر سے کارتوس کے چھرے برآمد ہونے چاہئے تھے اور پھر ان کو بطور وجہ ثبوت پولیس کو پیش کیا جانا چاہئے تھا لیکن اس نسبت بھی کوئی ثبوت صفحہ مسل پر موجود نہ ہے۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
8۔ فوجداری قوانین کے اصول کے تحت شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے، مقدمہ کو بلا شک و شبہ ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر ہوتی ہے۔
9۔ جب مرنے والے شبیر کے زخمی ہونے، اور اس زخم کی قسم نوعیت کی نسبت ابتدائی میڈیکل رپورٹ رکارڈ پر نہ ہونے، شبیر کے زیب تن کپڑوں کو بطور وجہ ثبوت ضبط نہ ہونے، وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ کے نہ ہونے۔ اور جملہ شہادت استغاثہ تائیدی ہونے اور ان تائیدی شہادت میں ربط نہ ہونے، ڈاکٹر کا بیان، تفتیشی کے بیانات اور امر واقع کے بیانات سے بھی شبیر کے پیٹ پر زخم لگنے یا اس سے خون بہنے کی تائید نہ ہونے جیسےانتہائی اہم امور کے باعث ملزم کیخلاف جرم زیر دفعہ 302 بلا شک شبہ ثابت نہ ہے۔ جس پر عدالت نےملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوے الزام سے بری کر دیا۔
دھیرکوٹ،302 کےملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیاگیا
10۔عدالت نے مقدمہ میں تفتیشی آفیسر سردار زاہد عباسی حال ایس ایچ او تھانہ ارجہ کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے کوتاہی کرنے، دوران تفتیش جان بوجھ کرتفتیش میں میجر نقائص چھوڑنے پر ایس پی باغ کو آفیسر موصوف کیخلاف سخت انضباطی کارروائی کرنے کا بھی حکم صادر کیا ہے۔