عدلیہ نےبہترین فیصلےکئےجو آج بھی رہنمائی کرتےہیں چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان
مظفرآباد( وقائع نگار )چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا ہے کہ آزادکشمیر میں عدلیہ کا مثالی نظام قائم ہے۔ ہماری عدلیہ نے بہترین فیصلے کر رکھے ہیں جو آج بھی بطور مثال ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین 1974 کے تحت سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کو اپیل اور نظرثانی کا اختیار حاصل ہے جبکہ ماتحت عدلیہ پر ہائی کورٹ کا انتظامی کنٹرول ہے۔اسوقت سپریم کورٹ میں 2024 میں دائر ہونے والے مقدمات کی سماعت چل رہی ہے۔
2023 کے صرف چند مقدمات زیر التوا ہیں۔ آزادکشمیر پرامن خطہ ہے یہاں امن وامان کی صورتحال مثالی ہے اسی لیے ہمارے پاس فوجدادی مقدمات کی تعداد بہت کم ہے۔ انصاف کی فراہمی کی بنیاد سول ججز سے شروع ہو کر سپریم کورٹ پر ختم ہوتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز یہاں سپریم کورٹ آف آزادجموں وکشمیر میں شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے 66ویں شریعہ کورس کے23رکنی وفد سے ملاقا ت کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کورس کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عبد الحمید بھی موجود تھے جبکہ شریعہ اکیڈمی کے وفد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج وقاضی صاحبان،آرمڈلا آفیسران،ڈسٹرکٹ اٹارنی اور پبلک پراسیکیوٹرز پر مشتمل تھا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں عدلیہ کی تاریخ مثالی رہی ہے۔
ابتدا ء میں یہاں ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت جوڈیشل بورڈ میں ہوا کرتی تھی۔ آزادکشمیرمیں 1975 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا اور جسٹس چوہدری رحیم داد مرحوم سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔
اسوقت سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں چیف جسٹس کے علاوہ دو جج ہیں اور جب ضرورت ہو تو ایڈہاک جج کی تقرری بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کا عدالتی نظام کسی قدر پاکستان کی عدالتوں سے مختلف ہے۔ ہائی کورٹ میں فوجداری مقدمات کی سماعت کے لئے شریعت اپیلیٹ بینچ قائم ہے
۔ جب کہ ٹرائل کورٹ میں قتل کے مقدمہ کی سماعت دو رکنی فوجداری عدالت کرتی ہے جس میں ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ ڈسٹرکٹ قاضی بھی سماعت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر فوجداری مقدمات کی سماعت کے لئے بھی سول جج کے ساتھ تحصیل قاضی اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ ایڈیشنل ضلع قاضی کی عدالت قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ خود احتسابی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس سے ریاست میں امن، ترقی اور خوشحالی کے راستے کھلیں گے۔ جج خواہ کسی بھی عدالت کا ہو اس کے کاندھوں پر انصاف فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ ہو یا ماتحت عدلیہ تمام ججز کا فرض ہے کہ وہ کسی خوف، رغبت و عناد، سفارش، دباؤیا تعلق کے بغیر منصفانہ اور آزادانہ فیصلے انصاف کے اصولوں اور میرٹ کے مطابق کریں۔ ماضی میں ہماری عدلیہ نے انصاف کے سنہری اصول وضع کیئے ہیں۔
میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ نظام فراہمی انصاف میں بہتری کے لئے موثر اقدامات اور اصلاحات کی گنجائش موجود ہونے کے با وجود ہماری عدالتیں دلیرانہ، بے باک اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرنے میں اپنا تابناک ماضی رکھتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ ہویا انتظامیہ تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل کا حل ہے۔ آزاد کشمیر میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بہتر انتظامی کنٹرول اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے قانون کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ امن و امان کے معاملہ میں آزاد جموں و کشمیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ٓ
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اسوقت ہندوستان انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے جب کہ غزہ میں فلسطین کے عوام کا قتل عام جاری ھے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک منظم طریقے سے مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے فیصلے دہلی کی سپریم کورٹ میں ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اپنی سپریم کورٹ موجود ہے۔کشمیر ی عوام اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ حق خودارادیت کے پیدائشی حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ہندوستان مسلسل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام اور حکومتوں نے ہمیشہ سے ہی بھارت کے غیر قانونی قبضہ اور ظلم و ستم کے خلاف برسرپیکار کشمیریوں کی بھرپور عسکری، اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کی ہے اور ہمیشہ سے ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے مثبت کردار ادا کیاہے لیکن بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کشمیریوں کو انکا حق خودارادیت دلوانے میں رکاوٹ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن میں زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ ہمارے نبی ﷺکی زندگی سے بھی مسلمانوں کو رہنمائی ملتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ انسانیت کی بھلائی کا درس دیا۔
جب تک مسلمان قرآن وسنت کے راستوں پر چلتے رہے کامیابی انکا مقدر ٹھہری لیکن جب ہم نے یہ راستہ چھوڑا تو ہم زوال کا شکار ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ شریعہ اکیڈمی کے وفد میں ملک کے تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔ آپ کو آزادکشمیر کے سب سے بڑے ایوان عدم میں آنے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔
اس طرح کے وفود کے تبادلہ سے جوڈیشل آفیسران کو ایک دوسرے کے عدالتی نظام کو سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ اس موقع پرچیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے شریعہ اکیڈمی کے کورس کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عبد الحمیدکو شیلڈ دی جبکہ کورس کوآرڈینٹر نے بھی شریعہ اکیڈمی کی جانب سے چیف جسٹس کو شیلڈ پیش کی۔