دخترمشرق،شہید رانی
دختر مشرق،شہید رانی
تحریر:۔ محمد سلیم بھٹیڈ پٹی سیکریٹری انفارمیشنپ اکستان پیپلز پارٹی، جنوبی پنجاب
آج جب ہم دختر مشرق یا شہید رانی کہتے ہیں تو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی دنیا میں بھی صرف ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے وہ ہے محترمہ بے نظیر بھٹوجو اپنے نام ہی کی طرح ہر لحاظ سے بے نظیر تھی،جس نے ہر وقت کے فوجی آمر کے خلاف عوامی جمہوری حقوق کی سربلندی کے لئے کلمہ حق کہتے ہوئے علم جہادبلند کیا اور اپنے عوام کے ساتھ ملکر آمریت کے بتوں کو شکست فاش دی۔
21 جون 1953 ء کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں پیدا ہونے والی نرم ونازک پنکی جب اپنے شہید بابا کی عوامی جمہوری حکومت پر شب خون مارنے والی فوجی آمریت کے خلاف میدان عمل میں آئی تو ایک طاقتور شیرنی کی مانندظلمت کے خلاف ڈٹ گئی،آج ہم اسی دختر مشرق کے یوم شہادت پر اسے خراج تحسین پیش کررہے ہیں جسے سامراجی استعمار نے اپنے حاشیہ بردار میر جعفروں کی سازشوں کے نتیجے میں ہم سے جدا کردیا،27 دسمبر 2007 ء کو عالمی سامراج کی گھناؤنی سازشوں سے شہید ہونے والی شہید رانی عالم اسلام کی مسلم ریاستوں کی پہلی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو 2 مرتبہ اس ملک کے غیور عوام نے اپنی سیاسی کاوشوں سے وزیر اعظم منتخب کیا، لیکن دونوں بار طالع آزما سیاسی بونوں نے انہیں عوامی اور قومی خدمت کرنے سے اپنی سامراجی سازشوں سے حکومت سے الگ کردیا،
بے نظیر بھٹو ایک ایسی سیاسی راہنماء تھیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی اسیری کے دوران ہی جنرل ضیاء کی شخصی آمریت کے خاتمہ کے لئے جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا، جہاں ملک بھر کے طول وعرض میں پر امن سیاسی جدوجہد کی وہیں بارہا پابند سلاسل بھی رہیں، اپنی کتاب دختر مشرق میں لکھتی ہیں کہ،
میں 2 اپریل کی صبح فوج کی فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے میرے گھریلو نام سے پکارا۔۔۔ پنکی،۔۔۔۔یہ ایسا لہجہ تھا کہ میرا جسم اکڑ گیا، باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں آج تمہارے والد سے ملاقات کرلیں۔ اسکا کیا مطلب ہے۔؟ مجھے فہم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اسی طرح میری والدہ بھی جانتی تھیں، لیکن ہم دونوں اس بات کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ یہ دن عمومی طور پر میری والدہ کی ملاقات کا دن تھا۔ انہیں ہفتے میں ایک دن ملنے کی اجازت تھی۔اب وہ ہم دونوں کو اکٹھے ملاقات کے لئے جانے کا کہہ رہے تھے، اسکا مطلب تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ ضیاء نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ایک بیٹی جو چھوٹی عمر میں ہی اپنے ماں، باپ کے ساتھ جمہوری جدوجہد میں شامل ہوگئی، جس نے نہ صرف خود سیکھا بلکہ اپنے کارکنوں کو بھی سکھایا کہ پر امن سیاسی جمہوری جدوجہد کیسے کرنا ہے، آئین اور قانون کی بالادستی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوامی جدوجہد کرنے والی دوراندیش سیاستدان کا نام ہے بے نظیر بھٹو، یہی بینظیر بھٹو تھیں کہ جن کو ان کی والدہ سابق خاتون اول محترمہ نصرت بھٹوکے ساتھ جمہوری احتجاج کی پاداش قذافی اسٹیڈیم لاہور میں 1982 ء میں کرکٹ میچ کے دران جب شائقین نے محترمہ نسرت بھٹو کو دیکھ کر بھٹو شہید کے حق میں نعرے لگائے تو محترمہ کو لاٹھی چارج کر کے لہولہان کردیا گیا،محترمہ بے نظیر بھٹو 1980 ء سے لے کر 2007 ء اپنی شہادت تک پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن اور چیئر پرسن بھی رہیں، اس دوران انہوں نے ملک بھر میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ دیگر جمہوری قوتوں کے کارکنوں کے ساتھ ملکر فوجی آمریت کے خلاف ذبردست عوامی مزاحمتی تحریک کی بھی قیادت کی،بے نظیر بھٹو کہتی ہیں کہ میں نے اس پرآشوب جدوجہد کی ذندگی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اس نے میرا انتخاب کیا، میری ذندگی میں ہلچلرنج والم اور فتوحات سبھی کچھ منعکس ہوتا ہے۔
پاکستان بین الاقوامی سطح پر جلوہ گر ہورہا ہے دہشت گرد اور انتہا پسند اسلام کا نام لیکر پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو تباہ کررہے ہیں،جمہوری قوتوں کو یقین ہے کہ آذادی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جاسکتا ہے۔فوجی آمریت دھوکہ بازی اور سازش کا خطرناک کھیل کھیلنے پر تلی ہوئی ہے،اپنی طاقت کے چھن جانے کے خوف سے یہ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ترقی پسندی سے ڈرتی ہے اور دہشت گردی کے شعلوں کو بھڑکاتی ہے۔
محترمہ کہتی تھیں کہ نہ تو پاکستان کوئی معمولی ملک ہے اور نہ ان کی ذندگی معمولی ہے۔ان کے والد اور 2 نوجوان بھائیوں کو سامراجی اور استعماری سازشی عناصر کے ساتھ ملکر قتل کردیا گیا۔انہیں ان کی والدہ، اور شوہر سمیت قید وبند کی اذیتوں سے دوچار کرنے کے لئے پابندسلاسل کیا گیا،انہوں نے ایک طویل عرصہ جلاوطنی میں گزار کر جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی شخصی و فوجی آمریتوں کا مقابلہ کیا، ان تمام مشکلات اور اذیتوں کے باوجود وہ اپنی ذندگی سے مطمئن اور پرسکون تھیں،انہیں اطمینان اور خوشی تھی کہ انہوں نے عالم اسلام کی پہلے منتخب وزیراعظم بن کر پرانی روایتوں اور دقیانوسی رسموں کو ختم کیا ہے۔ اب خواتین کو معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا موقع ملے گا۔
انہیں طاقت اور حوصلہ ملے گا۔الیکشن کے دنوں میں عالم اسلام میں یہ چبھتا ہوا سوال زیربحث تھا کہ اسلام میں ایک خاتون کا کیا کردار ہے۔؟آخر میں ثابت ہوا کہ ایک عورت وزیراعظم منتخب ہوسکتی ہے۔ایک اسلامی ملک کی حکمران بن سکتی ہے۔مردوں کے معاشرے میں مردوں اور عورتوں دونوں کی واحد راہنماء ہوسکتی ہے۔وہ اس عزت افزئی پر پاکستانی عوام کی شکرگزار تھیں کہ انہیں اس منصب پر فائز کیا گیا، جدت پسندوں اور انتہاپسندوں میں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ عالم اسلام میں عورتوں نے قدم آگے بڑھایا ہے، اور جب 2 دسمبر 1988 ء کو انہوں نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو اس کے بعد یہ قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔ کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی پہلی خاتون اسپیکر بھی پیپلز پارٹی نے بنائی اور وفاقی وزارتوں اور محکموں میں بھی انہیں موقع دیا، آج بھی پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز شریف ایک خاتون ہیں، اور یہ اسی پارٹی کی راہنماء ہیں جو محترمہ کی وزارت عظمی کے خلاف فتوے لگواتی تھی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت کم افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سماجی ریت ورواج کو تبدیل کرسکیں لیکن شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی شبانہ روز جدوجہد اور دوراندیشی سے یہ مقام حاصل کیا کہ پاکستانی معاشرے میں تبدیلی لے آئیں۔خواتین کو باوقار اور تحفظ بنانے کے لئے جہاں انہوں نے وومن پولیس اسٹیشن کا نظریہ دیا ساتھ ہی انہوں نے باعزت روزگار کے حصول کے لئے وومن بینک بھی قائم کیا،
4اپریل 1986 ء لاہور کاوہ سارا دن ائرپورٹ سے لیکر مینار پاکستان تک تمام راستہ اور میدان جو عوام کے عظیم الشان سمندر سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا آج بھی ہماری یادوں اور آنکھوں میں محفوظ ہے۔پورا لاہور اور پاکستان کے جمہوری لوگ جوق در جوق امڈے چلے آئے تھے کہ اپنی محبوب قائد کا جلاوطنی کے بعد استقبال کریں۔ لاکھوں عوام کا ہجوم اور اتنا پرامن کہ آمریت کے خلاف پرجوش ہونے کے باوجود مجال ہے کہ کسی درخت کا پتہ بھی ٹوٹا ہو اور آج بھی محترمہ کی سیاسی تعلیمات کا اثر ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکناں ہر سیاسی تحریک میں محب وطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیشہ پر ا،من بھی رہے اور دیگر نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود کبھی کسی پر ذاتی کیچڑ نہیں اچھالا، جبکہ محترمہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے آج ان کی شہادت کے بعد ان کے اعلی کردار کی شہادت دیتے نظر آتے ہیں،
محترمہ 1988 کے الیکشن میں جیت کر وزیراعظم منتخب ہوئیں توپاک فوج کے نوجوانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے سیاچین کی چوٹیوں پر اپنے جوانوں کے سنگ جاکھڑی ہوئیں،اور ایک ایسا لازوال کام کیا جو بھٹوز کا ہی خاصہ ہے، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی تو اس کی بیٹی شہید رانی نے دفاع پاکستان کو لاوزوال بنانے کے لئے اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لئے میزائیل ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔ یہ بھی ایک ناممکن کام تھا جسے انہوں نے اپنے ذاتی عزم اور حوصلہ سے ممکن بنادیا۔شہید رانی کی شخصیت کا خاصہ تھا کہ وہ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے وہ مقام دلوانا چاہتی تھیں کہ دنیا دیکھے۔وہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھیں۔وہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے پسماندگی، غربت و افلاس، جہالت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کر کے دنیا بھر اور خاص طور پر پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتی تھیں۔اور امید کی جارہی تھی کہ اگر 2008 ء کے انتخابات میں وزیراعظم بن گئیں تو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک مظبوط دیوار ثابت ہوں گی،
18 اکتوبر2007 ء کو جب کراچی میں بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کر کے وطن لوٹیں تو 10 اپریل 1986 ء سے بھی بڑا عوامی ہجوم ان کے استقبال کے لئے کراچی امڈ آیا،استعماری سامراج کے حاشیہ برداروں نے انہیں خوف زدہ کرنے کے لئے بموں کے خوفناک حملوں کے ذریعے انہیں ان کے سیاسی عزائم سے روکنا چاہا لیکن وہ پرعزم رہیں اور خوفزدہ نہ ہوئیں، وہ خود تو حملے میں بچ گئیں لیکن سینکڑوں جیالے کارکن اس حملے میں شہید ہوگئے، وہ جوان شیرنی خوفزدہ ہونے کی بجائے اگلی صبح ہی اسپتال میں زخمیوں کی عیادت اور شہداء کے گھروں میں لواحقین سے تعزیت کے لئے پہنچ گئیں،
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شہادت سے صرف 3روز قبل24دسمبر2007 ء کو محترمہ جب بہاولپور جلسہ کے لئے تشریف لائیں تو شہر بھر میں ان کا جلسہ ناکام بنانے کے لئے سراسمیگی اور دہشت پھیلانے کے لئے جلسہ میں بم دھماکہ کی افواہیں پھیلادی گئیں، جہاں پولیس کے انتظامی افسران پریشان تھے۔ وہیں بطور منتظمین جلسہ ہم پارٹی عہدیدار بھی فکر مند تھے، اسی بناء پر جلسہ میں عوام کی حاضری بھی کم تھی۔ہم نے بی بی صاحبہ کو اس تمام صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میں مرنے سے نہیں ڈرتی اور اگر ایک بھی شخص جلسہ میں ہو تب بھی وہ جلسہ سے خطاب لازمی کریں گی وہ کسی دہشت گردی سے گھبرانے والی نہیں، دوران تقریر میں بی بی صاحبہ کے پیچھے فرزانہ راجہ کے ہمراہ ٹھہرا تھا، محترمہ کا جوش اور ولولہ دیدنی تھا، وہ ایک شیرنی کی مانند گرج رہی تھیں۔اور مجھے اپنے انگریزی کے پروفیسرکی بات یاد آئی کہ انگریز کسی عورت کو فولادی خاتون کب کہتا ہے، کہ میرے دل نے کہا کہ محترمہ شہید رانی اب فولادی عورت(آئرن لیڈی) بن چکی ہے۔ اورمحترمہ کی اسی کیفیت سے خوفزدہ ہوکر ان کا بذدل دشمن انہیں قتل کرنے کے درپے تھا۔
آج ہم محترمہ شہید رانی کی 17ویں برسی منا رہے ہیں، ان کی شہادت کے بعدبھی پیپلز پارٹی اس ملک میں قومی اور صوبائی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوئی آج بھی سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں، لیکن شاید ہمارا دشمن بے نظیر کو شہید کر کے اس بات میں تو کامیاب ہوگیا کہ ہم شہید رانی جیسی دور اندیش قائد کے نہ ہونے پر وہ سب کام نہ کرسکے جو شاید بی بی صاحبہ کر تیں، تاہم صدر پاکستان آصف ذرداری نے دختر مشرق کی شہادت پر جس طرح پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر سندھی قوم پرستوں کو قومی دھارے میں شامل کر کے استحکام پاکستان کے لئے عملی کوشش کی اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ ادوار میں پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں پاکستا ن کے غریب اور مظلوم عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بہتر کردار ادا کرسکیں گے۔