آہ لطیف ثانی بھی بچھڑ گئے:تحریر، ڈاکٹر مسفر حسن
آہ لطیف ثانی بھی بچھڑ گئے:
تحریر، ڈاکٹر مسفر حسن
ایک باکردار سیاسی کارکن، باشعور راہنما، بھائیوں جیسے دوست حقیقی ساتھی و بلند حوصلہ انسان چاہے وہ سیاسی میدان ہو عوامی مفاد کی جدو جہد ہو یا تحریک آزادی کے لئے سفارتی جدوجہد ہو ہر میدان میں پیش پیش اور کبھی حوصلہ نہ ہارنے والا ساتھی لطیف ثانی بھی داغ مفارقت دے گیا، ایک ایسا ساتھ چھوٹ گیا جس کی تلافی ممکن نہیں اس رحلت پر دل بہت دکھی ہے چونکہ میرا اور ان کا ساتھ ایک نظریاتی حوالے سے بھی تھا اور ہم نے بہت سا کام اکٹھے کیا جس کی اشاعت نہ ہو سکی تھی سو سوچا کہ انکی سیاسی زندگی کا یہ پہلو کشمیری قوم کی امانت ان کے سپرد کر دوں، کل جب تاریخ لکھی جائے تو شائد قوم کو ان کی کاوشوں کا ادراک ہو سکے
محمد لطیف ثانی صاحب سے میرا تعلق اس وقت شروع ہوا جب میں نے جموں کشمیر لبریشن لیگ میں عملی شمولیت اختیار کی چونکہ میری نسبت لبریشن لیگ کے بانی قائد سے بھی ہے تو اس حوالے سے میرا ان سے ذاتی تعلق بن گیا ان کا کاروباری دفتر بلیو ایریا اسلام آباد میں تھا جبکہ میں راولپنڈی میں کلینک کرتا تھا اس وجہ سے ہماری ملاقاتیں گاہے گاہے ہوتی رہتی تھیں میں کلینک سے دوپہر کے چند گھنٹے چھٹی کرتا تھا تو اسی وقت میں ہم سیاسی اور سفارتی کام سر انجام دینے کے لئے استعمال کرتے تھے اکثر ہم کھانا کھانے نزدیکی ریستوران پر جاتے تو لطیف ثانی اپنے مخصوص انداز میں پہاڑی زبان میں کھانے کا آرڈر کرتے جس میں ایک مخصوص بات وہ ویٹر کو کہتے “دھی ناں برورا” لگانا چونکہ مجھے علم نہ تھا برورا کا مطلب کیا ہے تو میں نے سوال کیا جس پر ثانی صاحب نے بتایا کہ ہانڈی کو جب دم پر رکھا جائے تو اس سے قبل اس پر دھی کا ہلکا سا چھڑکاؤ کرنے کو برورا کہتے ہیں، لطیف ثانی صاحب کے بچے برطانیہ میں رہتے تھے اور انہوں نے خود بھی بہت سا وقت یورپ اور برطانیہ میں گزارا تھا اس لئے جماعت میں انہیں بین القوامی رابطہ بورڈ کا چیرمین منتخب کیا گیا تھا جبکہ میں بطور سیکرٹری جنرل جماعت کے لبریشن لیگ کا نقطہ نظر بین الاقوامی ایمبیسیوں تک پہنچانے کا کام بھی کرتا تھا لیکن اس کی میڈیا میں کوئی تشہیر نہیں کی جاتی تھی چونکہ برطانیہ جموں کشمیر کے معاملے میں براہ راست ایک فریق تھا اس لئے جناب مجید ملک صاحب جو لبریشن لیگ کے صدر تھے ان سے مشاورت کے بعد میں نے برطانوی ایمبیسی کے ساتھ روابط قائم کئے اس میں لطیف ثانی صاحب کی معاونت اور رفاقت رہی خصوصی طور پر جب ملکہ برطانیہ جب ہندوستان کی تقسیم کی پچاس سالہ تقریبات میں شرکت کے لئے اسلام آباد کے دورے پر انے والی تھیں تو میں نے برطانوی ایمبیسی کے سیاسی امور کے شعبہ کے سربراہ سے پوچھا کہ ہم ملکہ اور پرنس فلپ کو تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اس نے کہا کہ وہ معلوم کر کے بتائے گا ایک روز بعد اس کا جواب آیا کہ ملکہ برطانیہ ویسے تو ایسے تحفے نہیں لیتیں(قانونی پوزیشن) لیکن جب وہ بیرون ملک دورے پر ہوتی ہیں تو اس وقت یہ قانون معطل ہو جاتا ہے سو آپ تحفہ دے سکتے ہیں میں نے لطیف ثانی صاحب سے مشاورت کی کہ ہم اس موقعہ کو ہم لبریشن لیگ کے مسئلہ کشمیر پر موقف سے آگاہی کے لئے کیوں استعمال نہ کریں محترم ثانی صاحب بنا کسی حیل حجت کے راضی ہو گئے ہم نے طے کیا کہ چونکہ ملکہ اور پرنس فلپ (ملکہ کے خاوند) دونوں تشریف لا رہے ہیں سو طے ہوا کہ پرنس فلپ کے لئے کشمیری جبہ (کروائی وال گاؤن) ثانی صاحب کی جانب سے جبکہ کشمیری کڑھائی والی شال ملکہ برطانیہ کے لئے میری جانب سے پیش کی جائے گی ہم یہ تحفے خرید کر پیک کئے ساتھ ایک مختصر خط جس میں جماعت کے نقطہ نطر بیان کیا اور ساتھ میں ملکہ کو آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ جموں کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں ہم دونوں تحائف لیکر برطانوی سفارت خانے گئے اور سیاسی شعبہ کے سربراہ کے حوالے کئے جو اس نے مہمانوں کو پیش کر دیے جس کی رسید ایک خط کے زریعے ثانی صاحب کو وصول ہوئی، کچھ عرصہ بعد سیاسی شعبہ کے سربراہ کی مہمان خواتین اسلام آباد تشریف لائیں تو اس نے مجھے کہا کہ ان کو آزاد کشمیر کا وزٹ کروانا ہے میں نے محترم لطیف ثانی صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے فوری طور پر ڈڈیال کے ریسٹ ہاؤس میں کمرے بک کروا دیے اور ہم برطانوی سفارت کار اور اس کے مہمانوں کو لے کر ڈڈیال چلے گئے شام کے وقت ہم نے منگلا جھیل کے کنارے کچھ وقت گزارا شام کا کھا ثانی صاحب نے گھر پر تیار کروایا تھا اگلے روز مہمانوں کو واپس اسلام آباد رخصت کیا، جناب کے ایچ خورشید کی برسی کا موقع آیا تو ملک مجید صاحب کے حکم پر سردار قیوم صاحب جو اس وقت وزیراعظم آزاد کشمیر تھے ان کو دعوت نامہ پہنچانا تھا میں نے لطیف ثانی صاحب سے بات کر کے وقت طے کیا اور اپنے کلینک سے کھانے کے وقفے کے دوران میں بلیو ایریا میں ثانی صاحب کے دفتر پہچا اور انہیں ساتھ لے کر کشمیر ہاؤس گئے وہاں استقبالیہ پر موجود سٹاف سے کہا کہ سردارصاحب سے ملنا ہے تو سٹاف نے کچھ ادھر ادھر کیا تو میں نے ان کو اپنا کارڈ دیا کہ سردار قیوم صاحب کو پہنچا دیں تھوڑی دیر میں بندے نے واپس آ کر ہمیں بتایا کہ سردار صاحب بلاتے ہیں میں اور لطیف ثانی صاحب اندر گئے تو سردار قیوم کھانے کی میز پر اپنے درجن بھر مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے ہمارے لئے دو کرسیاں لگوائی جا چکی تھیں میں اور ثانی صاحب بیٹھ گئے سردار قیوم صاحب نے ویٹر کے کان میں کچھ کہا تو تھوڑی دیر بعد ہم دونوں کے لئے مچھلی تلی ہوئی لائی گئی کھانے کے بعد ہم نے سردار صاحب سے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا اور دعوت نامہ انہیں پہنچایا انہوں نے کوئی فوری جواب نہ دیا ہم وہاں سے واپس آگئے بعد میں انکی معزرت آگئی ہمیں یقین تھا کہ سردار صاحب نہیں آئیں گے لیکن ہم نے صدر جماعت کے حکم کی تعمیل کی، سال 1998 لبریشن لیگ کی سفارت کوششوں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے (گو ان کا تذکرہ کبھی میڈیا میں نہیں لایا گیا)میں نے فرانسیسی سفارت کار سے کہا کہ لبریشن لیگ کے صدر کا فرانس کا دورہ کروانا ہے تو اس نے جسٹس مجید ملک صاحب کے وفد کی پیرس کی وزارت خارجہ کی شعبہ ساؤتھ ایشیا کی انچارج سے ہماری ملاقات کا اہتمام کروا دیا اس وفد میں ملک صاحب لطیف ثانی صاحب اور میں پیرس گئے لطیف ثانی صاحب نے پیرس میں ڈڈیال سے تعلق رکھنے والے جناب چوھدری رشید صاحب (جن کا حال ہی میں انتقال ہوا )ان کے گھر ہمارے ایک رات ٹھہرنے کا بندوبست کروا دیا چوھدری رشید صاحب کے صاحب زادے نے ہماری میٹنگ سے واپسی پر ہمیں پیرس گھمایا اور ائفلٹاور کی بھی سیر کروائی اگلے روز میں پیرس میں مقیم اپنی کزن کے پاس چند دنوں کے لئے چلا گیا اور تقریباً ایک ہفتہ بعد ہم دونوں اکٹھے نیو یارک چلے آئے جہاں میں نے لطیف ثانی صاحب کے ساتھ ایک ہفتہ اور گزارا جس کے بعد وہ واپس اسلام آباد چلے گئے جبکہ میں نیو یارک میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد واپس اسلام آباد آگیا اس سارے سفر میں ثانی صاحب نے ایک بڑے بھائی کی طرح میرا خیال رکھا جو میری زنگی کے یادگار سفر تھے، میں جب پہلی بار برطانیہ آیا تو انہوں نے میرے لئے برمنگھم میں ٹھہرنے کے لئے ایک پورا گھر وقف کروا دیا تھا ایک ہفتہ قیام کے دوران مجھے لطیف ثانی صاحب کے بیٹوں طاہر ثانی وسیم لطیف ثانی ندیم لطیف ثانی اور ان کے بھانجے چوھدری اخلاق صاحب سے ملاقات کا موقع ملا جو انتہائی پر خلوص نوجوان اور اپنے والد لطیف ثانی صاحب کے فرماں بردار ہونے کے علاوہ ان کے ساتھ دوستوں جیسا برتاؤ رکھتے تھے جس سے ان کے مدبر والد ہونے کا بھرپور تاثر ملتا تھا اس کا مظاہرہ ان کی نماز جنازہ کے وقت بھی دیکھنے کو ملا جب ان کے بڑے بیٹے جناب طاہر لطیف ثانی نے اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھا کر سفر آخرت پر روانہ کیا، جناب کے ایچ خورشید سے انکی والہانہ عقیدت بے شمار مواقع پر دیکھنے کو ملی طوالت مضمون کی وجہ سے بہت مختصر بیان کروں گا یہ اس وقت کی بات ہے جب سلطان محمود لبریشن لیگ کو پیپلز پارٹی میں ضم کرنے کی سازش کر رہے تھے اور لبریشن لیگ کے اس وقت کے سیکرٹری مظفراباد کے خواجہ فاروق اس سازش میں اس کے شانہ بشانہ تھے اور مجھے بھی طرح طرح کے لالچ دیے گئے لیکن چند مخلص دوستوں کے ساتھ جن میں چوھدری شریف طارق ایڈوکیٹ لطیف ثانی ایڈوکیٹ راجہ خورشید خان چوھدری سلیمان صاحب نیاز راٹھور ایڈوکیٹ سید سراج کرمانی اور دیگر شامل تھے وہ ڈٹ گئے لطیف ثانی صاحب چونکہ اسی برادری سے تعلق رکھتے تھے تو ان پر نہ صرف سیاسی بلکہ برادری کا دباؤ بھی تھا لیکن انہوں نے ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کردیا ہر قسم کے لالچ اور دھونس کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے قائد کے کفن کو میلا نہ ہونے دیا، ان کے کردار کی اسی عظمت کی وجہ سے جو چاہے دھان گلی پل کا مسئلہ ہو منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ سے جڑے معاملات کا مسئلہ ہو جناب لطیف ثانی نے اپنے علاقہ اندر ہل کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے تاریخ ساز جدوجہد کی انہوں نے کسی بھی موقع پر عوامی حقوق پر نہ کوئی دباؤ نہ ہی کوئی لالچ قبول کیا اگر میں کہوں کہ اقبال رح نے یہ بات ایسے کردار کے لئے کہی تھی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے،
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا،
جہاں میں اہل ایما صورت خورشید جیتے ہیں،
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے،
آخر میں میری اللہ پاک سے دعا ہے کہ محترم لطیف ثانی صاحب کے درجات بلند فرمائے ان کے اہل خانہ کو یہ صدمہ عظیم برداشت کرنے کا حوصلہ دے اور ان کے ادھورے مشن کو جاری رکھنے کی ہمیں ہمت و توفیق عطا فرمائے (آمین)