مسلمان عورت نے ہمیشہ حجاب کو االلہ اور رسولﷺکی اطاعت سمجھ کر اختیار کیا، ثمینہ احسان 

مسلمان عورت نے ہمیشہ حجاب کو االلہ اور رسولﷺکی اطاعت سمجھ کر اختیار کیا، ثمینہ احسان
اسلام آباد ((کشمیر ایکسپریس نیوز)) پوری اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج کی جدید دنیا تک حجاب مسلمان عورت کا بنیادی فریضہ رہا ہے ۔جس کو وہ کسی شوق ،فیشن، جبر، پابندی، مردوں کے حکم یا معاشرے کے رواج کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم اور قران کے عائدکیے ہوئے فرض اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نافذ کیے گئے قانون کی وجہ سے کرتی ہے اور اسے اپنے لیے وجہ افتخار سمجھتی ہے۔ لیکن استحصالی قوتیں مسلمان عورت کے اس بنیادی حق کو مذہبی شعائر اور سکیولرازم کے خلاف مشتعل کرنے والا نشان بنا کر دہشت گردی کی علامت کے طور پر مشہور کر رہی ہیں۔ خصوصاً نقاب والی عورت کو دہشت گرد اور فرسودہ اقدار والی عورت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کو مسلم معاشرے کبھی قبول نہ کریں گے۔
اسلامی تہذیب و تمدن میں عورت اور مرد ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاونت اور رفاقت کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ دو مد مقابل قوتیں نہیں بلکہ زندگی کی گاڑی کے دو یکساں پہیے ہیں جو کہ حقوق ،اجر و ثواب اور عذاب و پاداش میں بالکل مساوی اور یکساں اور فرائض میں جداگانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ اس میں عورت کا کردار بحیثیت ماں اور بیوی کے اتنا ہی اہم ہے جتنا ایک ملک کے لیے حکمران فوج اور قانون کا ہوتا ہے۔ فطرت نے عورت کے حصے میں انسان کی تخلیق و تعمیر کی جو گراں بار ذمہ داری ڈالی ہے اس میں اس کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ محبت اور حفاظت سے کسی قیمتی شے اور قیمتی فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہستی کی طرح رکھی جائے۔ آج کی دنیا اسی لیے فساد سے بھر گئی ہے کہ عورت نے اپنے بنیادی فریضہ غیر اہم اور فرسودہ سمجھ کر ترک کر دیا ہے۔
اس ضمن میں جو دوسرا بنیادی حق عورت کے تحفظ اور وقار کے لیے اللہ نے عائد کیا ہے کہ وہ مخلوط معاشرے کی ترویج کی بجائے مرد و عورت کے اپنے اپنے فطری دائرہ کار میں کام کرنے کو ترجیح دیں۔ اس کے بعد جب بھی ضروری ہو تو وہ ایک باوقار لباس میں جسے اسلامی معاشرے میں حجاب کے نام سے جانا جاتا ہے گھر سے باہر کے امور سرانجام دے سکتی ہے ۔اور اسے قران کریم میں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے تاکہ وہ ستائی نہ جا سکیں اور محفوظ اور باوقار رہیں
۔مسلمان خواتین کی واضح اکثریت اب ببانگ دہل یہ اعلان کرتی ہے کہ جن تہذیبوں نے بھی مرد اور عورت کے درمیان فطری تقسیم کار کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں وہ روئے زمین سے نیست و نابود ہو گئی ہیں ان خیالات کا اظہار ناظمہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین شمالی پنجاب کی ناظمہ ثمینہ احسان نے یوم حجاب کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ اسلام مکالمے ،رواداری، امن و سلامتی اور محبت واخوت کا دین ہے۔ مسلمان عورت انہی نظریات کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ وہ اج بھی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے اور “جیو اور جینو دو” کے اصولوں پر اس زمین کو محبت اور سلامتی کی آغوش میں دینے کے لیے سرگرداں ہیں۔ مگر آج اس کے لیے حجاب کی پابندی ،اس کے خاندان میں بنیادی کردار اور مخلوط معاشرے کی تباہ کاریوں سے بچ کر محفوظ اور محبت بھری پناہگاہوں میں رہنے کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
شرق اور غرب میں بیدار ہونے والی نئی مسلمان عورت تمام تر دہشت گردی چاہے وہ (انفرادی ہو یا ریاستی دہشت گردی) سے سرعام بیزاری اور نفرت کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کا عزم کر رہی ہے کہ اپنی روایات اور اپنی اقدار پر کسی کا زبردستی تسلط تسلیم نہ کرے گی. چاہے اس کے لیے اسے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے. اور ہم اقوام عالم اور ان کے اداروں سے بھی یہ توقع رکھتی ہیں کہ زبردستی اپنی تہذیب اور اقدار کو تھوپنے کی بجائے وہ مکالمے ,بحث و مباحثے اور احترام اور رواداری کے اعلی انسانی اصولوں کو اپنائیں گے. تاکہ ہم مہذب معاشرے کو تشکیل دے کر مہذب اقوام سے اس روئے زمین کو امن و آشتی کی جگہ بنا سکیں.

Comments are closed.